1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: زيادہ ہلاکتيں آلودگی سے ہوتی ہيں يا دہشت گردی سے؟

عاصم سلیم
17 نومبر 2017

پاکستان کے مشرقی علاقے ان دنوں ’اسموگ‘ کی زد ميں ہيں۔ لاہور اور ارد گرد کے شہروں ميں يوميہ بنيادوں پر قريب ايک ہزار نئے مريض ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہيں ليکن اب تک حکام کی جانب سے کوئی حکمت عملی سامنے نہيں آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2nmme
Pakistan Smog in Lahore
تصویر: picture-alliance/Zumapress/R. S. Hussain

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد ميں رواں ہفتے ہونے والی بارش کے سبب دھند ميں کمی واقع ہوئی اور مرگلہ کی پہاڑياں ايک مرتبہ پھر دکھائی دينے لگيں۔ لاہور ميں بھی آلودگی کم ہوئی ہے اور فضا ميں مضر صحت ذرات PM 2.5 کی سطح  کم ہو کر 159 ہو گئی ہے جو چند ايام پہلے ايک ہزار سے زائد تھی۔ شہريوں کی جانب سے چلائی جانے والی مہم ’پاکستان ايئر کوالٹی‘ کے مطابق لاہور ميں فضائی آلودگی کی موجودہ سطح بھی عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ’محفوظ‘ قرار ديے جانے والے معيار سے چھ گنا خراب ہے۔ سوال يہ اٹھتا ہے کہ آيا فضائی آلودگی کی سطح ’خطرناک‘ سے ’مضر صحت‘ ہونا بہتری کی نشاندہی کرتی ہے؟

پاکستان چين اور بھارت کے بعد ان ممالک کی فہرست ميں تيسرے نمبر پر ہے جہاں آلودگی کے سبب سب سے زيادہ لوگ ہلاک ہوتے ہيں۔ گيٹس فاؤنڈيشن کے ’انسٹيٹيوٹ فار ہيلتھ ميٹرکس اينڈ ايوليوايشن‘ کے مطابق پاکستان ميں سالانہ سوا لاکھ افراد آلودگی کے سبب ہلاک ہوتے ہيں۔ پاکستان ميں دہشت گردی کے سبب ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد ساٹھ ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ حزب اختلاف کی سينيٹر شيری رحمان نے اسی ہفتے ايک مقامی اخبار ميں شائع ہونے والے اپنے کالم ميں لکھا ہے، ’’ميں شدت پسندی کے خطرے کو نظر انداز نہيں کرنا چاہتی ليکن ہميں يہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری عوام کو زمين پر موجود دہشت گردوں کے مقابلے ميں فضا ميں موجود مضر صحت ذرات يا آلودگی سے زيادہ خطرات لاحق ہيں۔‘‘ ان کے بقول اس ضمن ميں فوری طور پر اقدامات کيے جانے چاہييں۔

پاکستانی حکومت کے پاس آلودگی کے حوالے سے مستند ڈيٹا دستياب نہيں، جس سبب اس بات کی جڑ تک پہنچنا مشکل ہے کہ لاہور اور اردگرد کے صنعتی شہر پچھلے چند سالوں سے اسموگ کی زد ميں کيوں ہيں۔ ماہرين صنعتی اخراج، گاڑيوں سے نکلنے والے دھوئيں، کوڑے کرکٹ کو سڑکوں پر جلائے جانے جيسے عوامی کو قصور وار قرار ديتے ہيں۔

پچھلے ہفتوں ميں جب لاہور اور اس کے مضافاتی علاقوں ميں اسموگ اپنے عروج پر تھی، تو سانس لينے ميں تکليف اور اس سے منسلک امراض کے ساتھ يوميہ بنيادوں پر قريب ايک ہزار افراد ہسپتالوں کا رخ کر رہے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چيف جسٹس سيد منصور علی شاہ نے اس بارے ميں کہا، ’’يہ ہنگامی صورت حال ہے ليکن متعلقہ حکام نے اپنے دفاتر ميں چائے پينے کے علاوہ کچھ نہيں کيا۔‘‘

’ درخت تو ہر ملک ميں کٹتے ہيں، يہ کون سی بڑی بات ہے‘