1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ميں ’ٹیلی اسکول‘ کا منصوبہ، ماہرین کا خیر مقدم

عبدالستار، اسلام آباد
2 اپریل 2020

پاکستان میں ماہرین تعلیم نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کا مشروط خیر مقدم کیا ہے جس کے تحت پاکستان ٹيلی وژن نيٹ ورک کی مدد سے ٹیلی اسکول کھولنے کا اعلان کیا گيا ہے۔

https://p.dw.com/p/3aMlA
Symbolbild - Kind vor einem Fernseher
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے مطابق وفاقی وزارت برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے تعلیم کے نقصان کے ازالے کے ليے ٹیلی اسکول کا افتتاح کرنے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں پی ٹی وی کے ساتھ ایک مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط کيے گئے ہیں۔ معاہدے کے تحت پی ٹی وی تعلیمی اداروں کی چھٹیوں کے دوران ٹیلی اسکول کے نام سے ایک چینل شروع کرے گا جو صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک تعلیمی مواد نشر کرے گا۔ اس پروگرام سے جونیئر اور سنئیر کلاسسز کے طلبہ مستفید ہو سکيں گے۔ وزارت تعلیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ میٹرک تک کے مواد کو تیار کر لیا گیا ہے اور کچھ دنوں میں یہ مواد پی ٹی وی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ صبح میں جونیئر کلاسز کے طلبا کے ليے سیشن ہوں گے اور بعد کے اوقات میں سینئر طلبا کے۔ وزیر تعلیم شفقت محمود نے انگریزی روزنامہ ڈان کو بتایا کہ یہ اسکول آئندہ دس دن میں شروع ہو سکتا ہے۔

Symbolbild TV Schäden
تصویر: Fotolia/HaywireMedia

واضح رہے کہ کچھ عرصے پہلے وزارت تعلیم کے حوالے سے یہ خبریں آئی تھیں کہ وہ اقبالیات اور پاکستانیت جیسے مضامین شروع کرنے جاری ہے، جس پر ناقدین نے سخت تنقید کی تھی اور اس کو پروپگينڈا پھیلانے کا ایک ہتھیار قرار دیا تھا۔ اسی ليے کئی ماہرین تعلیم نے تازہ پيش رفت کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے۔

لاہور کے مشہور تعلمی ادارے لمز سے وابستہ اکیڈمک ڈاکٹر تیمور رحمان کا کہنا ہے کہ اگر اس اسکول کو صرف پروپیگنڈے کے ليے استعمال نہیں کیا جاتا ہے، تو یہ بہت اچھا اقدام ہے۔ ''ریاستیں پروپگينڈا کرتی ہیں لیکن اس چینل کو صرف اس ہی مقصد کے ليے نہیں استعمال کرنا چاہیے۔ اس کا مواد بین الاقوامی معیار کا ہونا چاہیے، جس کی تیاری میں معروف اکیڈمکس نے حصہ لیا ہو۔ سائنس اور سوشل سائنس کو جدید انداز میں پڑھایا جانا چاہیے اور یہ ورچوئل یونیورسٹی کی طرز کا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

تیمور رحمان کا کہنا تھا کہ کسی بھی آن لائن یا ٹی وی پر آنے والے پروگرام کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ طالب علموں کے علاوہ اسے عام لوگ بھی دیکھیں اور سیکھیں۔ ''مثال کے طور پر میں نے پی ٹی وی پر اے ہسٹری آف فلاسفی پر لیکچر دیے، جسے کمرشل بھی ملے اور عام لوگوں نے بھی اسے دیکھا۔ کسی دور میں معروف دانشور منصور سعید صاحب نے کاسموس پر اردو میں دستاويزی فلم بنائی، جوپی ٹی وی پر چلی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔ اسی طرح بی بی سی نے لندن یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کئی تعلیمی پروگرامز بنائے، جو بہت کامیاب ہوئے۔‘‘

پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالے ہو گیا ہے۔ اسی ليےکئی ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ اس مسئلے پر صوبائی حکومتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ کراچی یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈی سینیٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے یقیناً طلبا کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ ’’لیکن کئی اہم سوالات جواب طلب ہيں۔ مثلا یہ کہ مواد کس تعلیمی بورڈ کا ہوگا۔ آپ کے ہاں آغا خان بورڈ، وفاقی بورڈ اور صوبائی بورڈز موجود ہیں۔ تعلیم اب صوبوں کے پاس ہے۔ اگر آپ ان سے تعاون نہیں کریں گے تو اس کا فائدہ کم ہوگا لیکن اگر تعاون کریں گے تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں طلباء اوپن یونیورسٹی کے پروگرامز دیکھتے ہیں اور پی ٹی وی کی پہنچ ملک کے کونے کونے میں ہے۔‘‘

عبدالستار، اسلام آباد / ع س