1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں بیگو ایپ پر پابندی، ٹک ٹاک کو بھی حتمی نوٹس جاری

بینش جاوید
21 جولائی 2020

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے بیگو ایپ کی بندش کا نوٹس جاری کر دیا گیا ہے جبکہ ٹک ٹاک کو بھی حتمی وارننگ دے دی گئی ہے۔ پی ٹی اے کے مطابق  اسے ان ایپلیکیشنز کے خلاف  شکایات موصول ہوئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3feME
تصویر: picture-alliance/dpa/Da Qing

پی ٹی اے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق  اس اتھارٹی کو سوشل میڈیا ایپلیکیشنز بالخصوص ٹک ٹاک اور بیگو پر فحش اور غیر اخلاقی مواد اور اس مواد کے معاشرے اور نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات کے حوالے سے متعدد شکایات موصول ہوئیں۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے، ''پی ٹی اے نے ان سوشل میڈیا کمپنیوں کو ان کے مواد کے لحاظ سے ملکی  قانون کے تحت اور اخلاقی حدود کے اندر رکھتے ہوئے اعتدال لانے کے لیے نوٹس جاری کیے تھے، تاہم ان اداروں کا جواب تسلی بخش نہیں رہا تھا۔  اس لیے پی ٹی اے نے فوری طور پر بیگو کو بند کرنے اور ٹک ٹاک کو حتمی نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ کمپنیاں اپنی سوشل میڈیا ایپلیکیشنز کے ذریعے فحاشی اور غیر اخلاقی مواد پر قابو پانے کے لیے جامع طریقہ ہائے کار وضع کر سکیں۔‘‘

تاہم پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین اور ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ماہرین  اس پابندی سے اتفاق نہیں کرتے۔ میڈیا حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیم 'میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کے اسد بیگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ٹک ٹاک کو نشانہ بنانا پی ٹے ای کی اخلاقیات کا درس دینے  سے متعلق  پالیسی کا عکاس ہے حالانکہ انٹرنیٹ پر فحاشی کو کسی بھی طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔ میری رائے میں کسی بھی ایسے پلیٹ فارم کو مکمل طور پر بند کر دینا غلط ہے، جس پر ہر طبقے کے افراد ویڈیوز شیئر کر سکتے ہوں۔‘‘ اسد بیگ کی رائے میں بیگو ایپ سے متعلق کچھ ایسی خبریں ضرور نشر ہوئی ہیں جو پریشان کن ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسی خبریں ہیں کہ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور لڑکیوں کو فحش ویڈیوز بنانے پر اکساتے ہیں لیکن اس ایپ کو بند کر دینے کے بجائے ایف آئی اے کو ان الزامات کی چھان بین کرنا چاہیے۔‘‘

پاکستانی قانون کے مطابق ایسی سوشل میڈیا کمپنیاں جو سرکاری احکامات نہ مانیں، حکومت ان کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے۔ سائبر رائٹس کے علم بردار اسامہ خلجی کہتے ہیں، ''ایسا لگتا ہے کہ ایپس کے ذریعے کیا معلومات فراہم کی جارہی ہیں، حکومت اس بات کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔‘‘ پاکستان کے سائبر سکیورٹی قانون کے تحت پی ٹی اے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مواد کو فحش قرار دے دے اور اس بنیاد پر کسی بھی ایپ پر پابندی لگا دے۔  اسامہ خلجی کے مطابق، ''یہ ریاست کا کام نہیں ہے کہ وہ شہریوں کو اخلاقیات کا درس دے، خاص طور پر جب ان ایپس کے ذریعے نوجوان نسل اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار بھی کر سکتی ہو اور وہ ایسی ٹیکنالوجی استعمال کر سکے، جو معاشرتی طبقاتی نظام سے مبرا ہے، جہاں کوئی بھی پیسہ کما سکتا ہے اور لطف اندوز بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنی والی فریحہ عزیز کہتی ہیں، ''بچوں کو تحفظ دینے کے نام پر آپ ہر کسی کو کسی بھی آن لائن پلٹ فارم سے محروم نہیں کر سکتے۔ پابندیاں عائد کرنے سے اور زیادہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔‘‘ فریحہ عزیز کی رائے میں ذہنی امراض کا معاملہ ایک بہت پیچیدہ مسئلہ ہے، جس پر ویسے تو بات نہیں کی جاتی لیکن ایسی ایپس کو 'ذہنی صحت‘ کا نام لے کر بند کر دیا جاتا ہے۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ پاکستان میں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس یا ایپلیکیشنز پر پابندی لگائی گئی ہے۔ کچھ روز قبل پاکستان نے 'پب جی‘ نامی آن لائن گیم پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ اس گیم  کے باعث نوجوان پر تشدد سرگرمیوں اور خود کشی کی طرف مائل ہو رہے تھے۔