1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سیلاب کی تازہ ترین صورتحال

30 اگست 2011

پاکستان کے محکمہ موسمیات نے اگلے چند دنوں میں سیلاب کا باعث بننے والی تیز بارشوں کی پشین گوئی کی ہے۔ اگلے چند دنوں میں ہونے والی بارشیں ملک کے بعض علاقوں میں سیلاب کا باعث بن سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/12Pta
تصویر: UN Photo/Evan Schneider

پنجاب فلڈ فورکاسٹینگ ڈویثرن کے چیف میٹریالوجسٹ محمد ریاض نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس وقت دریائے ستلج پر گنڈا سنگھ کے مقام پر درمیانے درجے، جبکہ ہیڈ سیلمانکی پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔ ان کے بقول اگلے چند دنوں میں ہونے والی بارشیں ملک کے بعض علاقوں میں سیلاب کا باعث بن سکتی ہیں تاہم ان بارشوں سے سندھ کے جنوبی اور وسطی علاقے جبکہ بلوچستان کے مشرقی علاقے زیادہ متاثر ہونے کا امکان ہے۔

ماہرین کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں پانی کے بڑے ڈیم تربیلہ اور منگلا بھر چکے ہیں، اس لیے اب بارشی پانی کو سٹور کرنا ممکن نہیں ہوگا اور یہ پانی دریاوں کی سطح میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس کے باوجود ماہرین کا ماننا ہے کے پاکستان میں رواں برس گزشتہ سال کی طرح سیلاب کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قائم کیے گئے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل خالد شیردل نے بتایا کہ دریاے ستلج میں پانی کی سطح پچھلے پندرہ سالوں کے دوران بلند ترین مقام پر ہے۔

یہاں سے گذرنے والے نوے ہزار کیوسک کے ریلے نے قصور، پاکپتن، اوکاڑہ، وہاڑی، بہاولنگر اور بہاولپور سمیت کئی علاقوں میں زرعی فصلوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ادھر خوشاب اور میاں والی میں بارش کے بعد پہاڑی نالوں سے آنے والے پانیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیلاب کے باعث تین افراد ہلاک اور پندرہ زخمی ہوئے ہیں۔

Flutkatastrophe in Pakistan Flash-Galerie
سندھ کے سات اضلاع کے نو ہزار دیہات جبکہ بیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیںتصویر: DW

یہاں سینکڑوں مکانات اور ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سینئر ممبر احمد کمال نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اب تک سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان صوبہ سندھ میں دیکھنے میں آیا ہے۔ سندھ کے سات اضلاع کے نو ہزار دیہات جبکہ بیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ چالیس سے زائد افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ صرف بدین اور اس کے نواحی علاقوں میں ساڑھے چھ لاکھ مکانوں کو نقصان پہنچا ہے اور لاکھوں ایکڑ رقبے پر زرعی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ کے متاثرہ علاقوں میں کھانے پینے کی اشیا اور امدادی سامان وافر مقدار میں پہنچا دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق این ڈی ایم اے نے اپنے ملازمین کی عید کی چھٹیاں منسوخ کر دی ہیں اور چوبیس گھنٹے ریلیف کا کام جاری ہے۔

احمد کمال کے بقول کوہستان کے علاقے میں سیلابی ریلے کے باعث ہلاک ہونے والے تریسٹھ افراد میں سے اکتالیس کی لاشیں اب تک نکالی جا چکی ہیں۔

ایک غیر سرکاری تنظیم ’ادارہ استحکام شرکتی ترقی‘ کے سربراہ نصیر میمن نے بتایا کہ سندھ میں سیلاب دریائی پانی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک غلط ترقیاتی منصوبے(لیباڈ) کے وجہ سے آیا۔ ان کے بقول ترقیاتی اداروں کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ سترہ روز بعد بھی سندھ کا بارشی پانی سمندر میں نہیں جا سکا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں نصیر میمن کا کہنا تھا کہ اگرچہ ‍ حکومت اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے امدادی کاروائیاں جاری ہیں لیکن اس کے باوجود سیلاب سے متاثرہ لوگ پریشان ہیں اور ان کو عید کی خوشیاں یاد نہیں رہی ہیں۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں