1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں صحافیوں کی زبان بندی کا خطرناک رجحان

8 جولائی 2019

اتوار کی شب جنگ گروپ سے وابستہ تین سرکردہ صحافیوں اعزاز سید، عمر چیمہ اور وجیہ ثانی کے ٹویٹر اکاؤنٹس بند ہو گئے۔ بعد میں جیو نیوز کے میزبان وجیہ ثانی کا اکاؤنٹ بحال کر دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/3LkU8
Symbolbild | Twitter
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska

صحافی وسیم عباسی نے ایک ٹویٹ میں لکھا،’’پی ٹی وی پر ملی نغمے بھی نہیں چل رہے مگر پھر بھی عمر چیمہ اعزاز سید اور کئی صحافیوں کے ٹویٹر اکاؤنٹ مکمل خاموش ( ڈی ایکٹیو) ہو گئے ہیں؟‘‘


اطلاعات کے مطابق صحافیوں کو اپنے اکاؤنٹس انتظامیہ کے کہنے پر خود ہی بند کرنے پڑے۔ صحافی مرتضی سولنگی نے کہا کہ جنگ گروپ کو وضاحت کرنی چاہیے کہ  آیا ایسا کرنے کے لیے انتظامیہ نے صحافیوں پر دباؤ ڈالا اور اگر ڈالا تو کیوں؟
 

 پاکستان میں میڈیا کے بڑے بڑے اداروں میں صحافیوں کے کالم سینسر ہونا معمول بن چکا ہے۔ میڈیا ہاؤسز پر دباؤ ڈال کر کئی صحافیوں کو پہلے ہی فارغ کرایا جا چکا ہے۔ صحافیوں نے مجبوراً اپنی خبروں اور اظہار رائے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا تو اسے بھی بند کرانے کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ 
صحافیوں کو دھمکیوں اور ان پر الزام تراشیوں میں بظاہر پی ٹی آئی حکومت سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹ پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اس کے تازہ مثال چند دن پہلے ArrestAntiPakJournalistsۙ#  کا ہیش ٹیگ ہے جو کچھ دیر کے لیے ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا دیا گیا۔ 
اس سائبر مہم کی آڑ میں پاکستان کے بعض نامور اور تجربہ کار صحافیوں کی کردار کشی کی گئی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں۔   

 صحافیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اس خطرناک اور تشویش ناک رجحان کے پیچھے سیاست میں ملوث عسکری قوتیں اور انٹیلیجنس ادارے ہیں۔


پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ان الزامات کے بعد اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ میں کہا کہ سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ اور منفی رجحان کے لیے استعمال غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے۔ کسی بھی شخص، شعبے یا ادارے کے خلاف بغیر سوچے سمجھے بیانات دینا غیر اخلاقی ہے، جس کی ایک مثال صحافیوں کے خلاف ٹرینڈ چلانا ہے۔    

    
ش ج / ب ج