1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں طوفانی موسم کی تباہ کاریاں، چونتیس افراد ہلاک

امتیاز احمد2 جون 2016

بدھ کی شب دارالحکومت اسلام آباد، نواحی شہروں اور شمال مغربی پاکستان میں آنے والے طوفان باد و باراں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر چونتیس ہو گئی ہے۔ طوفان کی وجہ سے متاثرہ علاقوں کو بجلی کی فراہمی دیر تک بند رہی۔

https://p.dw.com/p/1Iyn6
Pakistan Wetter Sturm Hitze
تصویر: picture-alliance/dpa/PacificPress/R. S. Hussain

پولیس اہلکار ثاقب محمود کے مطابق شدید آندھی اور بارش کی وجہ سے صرف دارالحکومت اسلام آباد میں دس افراد ہلاک اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق زیادہ تر متاثرین درختوں اور سائن بورڈز کے گرنے کی وجہ سے ہلاک یا زخمی ہوئے۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ شب چلنے والی طوفانی ہواؤں کی فی گھنٹہ رفتار قریب 150 کلومیٹر تک رہی۔ ہنگامی حالات میں فوری مدد کے ذمے دار ادارے کے ایک اہلکار فاروق بٹ کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ راولپنڈی میں کم از کم سولہ افراد ہلاک ہوئے جبکہ اس شہر میں 65 کے قریب زخمی افراد کو ہسپتالوں میں لایا گیا۔

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں صوبائی ریسکیو ایجنسی کے ترجمان بلال احمد فیضی نے بتایا کہ وہاں اس طوفان کی وجہ سے آٹھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ تیس کے قریب زخمیوں کا علاج جاری ہے۔

فیضی کا مزید کہنا تھا کہ تیز ہواؤں کی وجہ سے بجلی کے بے شمار کھمبے اپنی جڑوں سے اکھڑ گئے اور اسی وجہ سے صوبے کے کئی حصوں میں گزشتہ بارہ گھنٹوں سے بجلی کی فراہمی معطل ہے۔

Pakistan Wetter Sturm Hitze
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

دوسری جانب پاکستانی محکمہ موسمیات نے ملک کے شمال مغربی علاقوں میں مزید بارشوں اور تیز ہواؤں کی پیش گوئی کی ہے۔ گزشتہ برس صوبہ خیبر پختونخوا میں آنے والے طوفان کی وجہ سے کم از کم چوالیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد پاکستان کے پالیسی سازوں پر اس دلیل کے ساتھ تنقید میں اضافہ ہو گیا تھا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہے۔

پاکستانی محکمہ موسمیات کے اہلکار محمد حنیف کا کہنا تھا، ’’اس طوفان کے بعد پالیسی سازوں کی آنکھیں کھل جا نی چاہییں۔‘‘

اسلام آباد میں قائم ایک غیر سرکاری ادارے ’پتن‘ کے قومی رابطہ کار سرور باری کا کہنا ہے کہ ملک میں خشک سالی بھی ایک مسئلہ ہے اور ساتھ ہی اگر حکومت نے موسمی طوفانوں اور زمینی تودے گرنےکا سبب بننے والی بارشوں سے نمٹنے کے لیے ایسی آفات کے شکار علاقوں میں بسنے والوں کی مدد کے لیے کافی اقدامات نہ کیے تو آئندہ چند سالوں میں اندرون ملک مہاجرت میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کے مطابق 2050ء تک پاکستان اور بنگلہ دیش میں ڈھائی ملین سے زائد انسان ایسے مقامات پر زندگی بسر کر رہے ہوں گے جو منفی ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے نہایت خطرناک ہوں گے۔