1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو ووٹ ڈالنے کا حق کیوں نہیں؟

فریداللہ خان، پشاور
18 اکتوبر 2018

پاکستان میں چودہ لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور قریب اتنے ہی غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں، تاہم یہ افغان شہری اپنے ملک میں ہونے والے انتخابات میں رائے دینے سے محروم ہیں۔

https://p.dw.com/p/36mAA
Pakistan Flüchtlinge aus Afghanistan
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed

افغان حکومت نے پاکستان میں رہائش پذیر مہاجرین کے لیے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد رواں ماہ کے دوران ہونے والے پارلیمانی انتخبات میں ووٹ ڈالنے کے خواہش مند تو ہے، تاہم وہ ووٹ ڈالنے کے لیے افغانستان جانا نہیں چاہتے جس کی بنیادی وجوہات میں افغانستان میں بڑھتی ہوئی  بدامنی اور دونوں ممالک کے مابین کشیدہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان واپسی میں ممکنہ مشکل کا خوف شامل ہیں۔

پاکستان، باالخصو ص خیبر پختونخوا میں قیام پذیر افغان مہاجرین افغان سیاستدانوں سے ناراض اور مایوس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین دیگر ممالک میں آباد ہیں جنہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد حکمران انہیں بھول جاتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو نے پشاور میں کاروبار کرنے والے ایک افغان مہاجر درویش افغان سے اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا، ’’پاکستان میں تیس لاکھ افغان رہائش پذیر ہیں یہ لوگ یہاں اپنی خوشی سے یہاں نہیں آئے، بلکہ انتہائی مجبوری کے عالم میں اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ اگر انہیں افغان پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا جاتا تو ہم کم از کم ایسے لوگوں کو منتخب کرانے میں اپنا کردار ادا کرتے جو چار دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے اور افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے اقدامات کرتے۔‘‘ درویش کا مزید کہنا تھا ''افغانستان میں صبح شام بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے ہیں، ایسے حالات میں کون زندگی داؤ پر لگا کر ووٹ ڈالنے جائے گا۔‘‘ انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ بیرون ملک مقیم افغان مہاجرین کو ووٹ کا حق نہ دیے جانے کی صورت میں افغانستان میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو گا۔

پشاور میں مقیم افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں ہونے والے انتخابات سے لاعلم ہے۔ ان مہاجرین کی اکثریت پاکستان ہی میں پیدا ہوئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اب تک انہوں نے افغانستان میں کسی کو ووٹ نہیں دیا اور نہ ہی کسی سیاسی رہنما نے کبھی ان سے رابطہ کیا ہے۔

پشاور میں ڈرائی فروٹ فروخت کرنے والے افغان مہاجر بصیر احمد کا کہنا تھا،’’میں پشاور میں پیدا ہوا ہوں، گذشتہ پچیس سال سے ہمارے خاندان میں نہ کسی نے ووٹ دیا اور نہ ہی مجھے کوئی اندازہ ہے کہ ووٹ کیا ہے اور اس سے ہو گیا کیا۔ لیکن خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت آئے جو ملک میں امن قائم کر سکے۔ افغان حکومت کے پاکستان کے ساتھ رویے کی وجہ سے ہمیں یہاں بعض اوقات مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن افغان حکمرانوں کو یہ احساس تک نہیں کہ پاکستان نے ان کے لاکھوں باشندوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔‘‘

افغان الیکشن کمیشن کے مطابق افغانستان میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں نوے لاکھ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان میں خواتین کی تعداد سوا تین لاکھ کے قریب ہے۔ افغان پارلیمان کی دو سو انچاس نشستوں میں 68 نشستیں خواتین کے لیے مختص ہیں۔ طالبان نے الیکشن کی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رکھی ہے جس کی وجہ سے افغان عوام انتخابی عمل میں حصہ لینے سے خوفزدہ بھی ہیں۔

اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے میں پشاور میں مقیم افغان امور کے ماہر شمیم شاہد سے رابطہ بھی کیا۔ ایک سوال کے جواب میں شاہد کا کہنا تھا،  ’’افغان الیکشن کے لیے پشاور اور کوئٹہ میں انتظامات ہوسکتے تھے۔ لیکن افغان حکومت کے پاس وسائل اتنے نہیں ہیں کہ وہ وہ یہاں کے لوگوں کے لیے ووٹ ڈالنے کا انتظام کرسکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا ''اگر افغان حکومت بین الااقوامی برادری کے تعاون سے پاکستان میں بسنے والے اپنے شہریوں کے لیے ووٹ ڈالنے کا انتظام کرنے میں کامیاب ہو جاتی، تو افغان الیکشن پر گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں