1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں می ٹو تحریک کیوں ناکام ہوئی ؟

بینش جاوید
20 دسمبر 2018

پاکستان میں می ٹو تحریک شروع بھی ہوئی اور ختم بھی ہوگئی۔ اس سال کئی نامور خواتین نے عوامی سطح پر ہراسگی کی شکایت کی تاہم می ٹو کا پاکستان میں وہ رد عمل سامنے نہیں آیا، جو  ہالی وڈ یا بالی وڈ میں نظر آیا۔

https://p.dw.com/p/3AQnU
Bildkombo -  Meesha Shafi und pakistianischen Schauspieler/Sänger Ali Zafar

آخر پاکستان میں می ٹو ایک کمزور تحریک کیوں رہی ؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری سے وابستہ میشا شفیع ایک بااثر اور تعلقات رکھنے والی شخصیت ہیں لیکن ان کی اور چند اور خواتین کی جانب سے علی ظفر پر لگائے گئے الزامات کے باوجود یہ معاملہ اب ختم ہی ہو گیا ہے۔

پاکستان کی ملٹی میڈیا صحافی امبر رحیم شمسی نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ پاکستان میں می ٹی تحریک کے دروازے میشا شفیع اور علی ظفر کے کیس کی بدولت کھل سکتے تھے۔ اب یہ دونوں شخصیات ایک قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘

صحافی تنزیلہ مظہر جو کہ خود جنسی ہراسگی کا شکار بنیں اور عدالت بھی گئیں، نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا،’’ پاکستان میں اب بھی خواتین دفاتر اور کام کی جگہوں پر اپنی شناخت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ ہالی وڈ اور بھارت میں خواتین افرادی قوت کا ایک اہم حصہ ہیں اور اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو گئیں ہیں۔‘‘

میشا شفیع کی جانب سے علی ظفر پر لگائے جانے والے الزامات کے باوجود بہت کم خواتین ہراسگی کی شکایت کے ساتھ منظر عام پر آئیں۔ اس حوالے سے پاکستانی صحافی فرحت جاوید ربانی کا کہنا ہے، ’’ گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تاہم اسی رفتار سے معاشرے کی سوچ تبدیل نہیں ہوئی اور بہت سے مرد اور خواتین بھی گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی خواتین کے بارے میں بہت مثبت سوچ نہیں رکھتے۔‘‘

’انکار کرو‘ دراصل ’می ٹو‘ سے مختلف ہے، انجلین ملک

ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن آن لائن ہراسگی کا شکار بننے والی خواتین کو قانونی اور نفسیاتی مدد فراہم کرتی ہے۔ اس تنظیم کی بانی نگہت داد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ اکثر متاثرہ خواتین کے پاس مالی وسائل نہیں ہوتے اس لیے وہ قانونی راستہ اختیار نہیں کر پاتیں۔‘‘ داد کی رائے میں جتنی زیادہ خواتین آواز اٹھائیں گی اتنا ہی دوسری خواتین کے لیے بولنا آسان ہو جائے گا۔

یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جنسی ہراسگی اب بھی پاکستانی معاشرے میں ایک ایسا موضوع ہے جس پر کھل کر بات کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بعض اوقات جنسی ہراسگی کے خلاف آواز اٹھانے والی خواتین کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے یا پھر اپنے ہی خاندان کی ناراضی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔

صحافی تنزیلہ مظہر کہتی ہیں کہ پاکستان میں ہراسگی کو بطور جرم نہیں لیا جاتا، خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ مناسب لباس پہنیں اور اگر کسی عورت نے شکایت کر دی تو اسے خاموش رہنے کا کہا جائے گا۔  اس سال آٹھ سالہ زینب کے ساتھ جنسی تشدد کے بعد اس کی ہلاکت کی خبر کو میڈیا نے کافی اٹھایا تھا لیکن اس ہولناک سانحے پر زیادہ گفتگو سوشل میڈیا پر نظر آئی۔ ایسی خبر سننے کو نہیں ملی کے اس بچی کی موت کے بعد لوگ سٹرکوں پر نکل آئے ہوں اور سرکاری مشینری کو کوئی فوری ایکشن لینے پر مجبور کیا گیا ہو۔ اس کے برعکس 2012ء میں دہلی ریپ کیس بھارت کے کئی بڑے شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر لے آیا تھا۔ زبردست اور زوردار احتجاج اور تحریک نے بھارت کو جنسی زیادتی سے متعلق قوانین تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ زینب کیس میں بہرحال مجرم کو سزا سنائی گئی جسے ایک مثبت پیش قدمی ٹہرانا ہوگا۔

امبر شمسی کی رائے میں پاکستان میں جب تک آواز اٹھانے والی خواتین کو دوستانہ ماحول اور قانونی معاونت فراہم نہیں کی جائے گا تب تک پاکستانی خواتین خاموشی سے زیادتیاں برداشت کرتی رہیں گی۔

'ہم خواتین آزاد محسوس کر رہی ہیں‘

جنسی زیادتی کی گئی، افغان فٹ بال خواتین کھلاڑیوں کا الزام