1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’پاکستان کو’برین ڈرین‘ کی نہیں ’برین گین‘ کی ضرورت‘‘

شکور رحیم، اسلام آباد25 دسمبر 2013

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ پا نچ سالوں میں 28 لاکھ پاکستانی روزگار کے حصول کے لیے بیرون ملک ہجرت گر گئے۔

https://p.dw.com/p/1Agib
تصویر: DW/A. Awan

سمندر پار پاکستانیوں اور انسانی وسائل کی ترقی کی وفاقی وزارت کی جانب سے جاری کیے گئے تازہ اعدادو شمار کے مطابق جنوری 2008ء سے ستمبر 2013ء کے درمیان غیر ملکی آجروں کی جانب سے منتخب ہو کر بیرون ملک جانے والوں میں زیادہ تر فنی مہارتیں رکھنے والے نوجوان تھے۔ ان اعدادو شمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سےچھوٹے صوبے بلوچستان سے بھی 32 ہزار افراد روزگار کے لیے بیر ون ملک جانے والوں میں شامل ہیں۔ صرف گزشتہ بر س 41,500 پروفیشنل اور ٹیکنیکل افراد بیرون ملک چلے گئے۔

اگر ہمیں برین ڈرین کو روکنا ہے تو ہمیں قومی پالیسی میں واپس پہلے والی ترجیحات لانا ہوں گی، ڈاکٹر عطاء الرحمان
اگر ہمیں برین ڈرین کو روکنا ہے تو ہمیں قومی پالیسی میں واپس پہلے والی ترجیحات لانا ہوں گی، ڈاکٹر عطاء الرحمانتصویر: CC BY-SA Urooj rashid

بعض حلقے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے ملک میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ملنے کی وجہ سے بیرون ملک جانیوالوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ حکومت کے لیے لمحہء فکریہ ہے۔

پاکستان کے اعلی تعلیمی کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر عطاء الرحمان کاکہنا ہے کہ ان کے دور میں 600 اعلٰی تعلیم یافتہ پاکستانیوں کو متعلقہ شعبے کی عام تنخواہ کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تنخواہ اور خصوصی مراعات دے کر وطن واپس لایا گیا۔ ان میں سے 300 کو مستقل ملازمتیں دی گئیں۔ ان افراد میں زیادہ تعداد ان افراد کی تھی، جنہیں مختلف یورپی ممالک سے واپس لایا گیا تھا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان کے مطابق بعد میں تعلیمی بجٹ پر عائد کی گئی بھاری کٹوتیوں کے سبب یہ لوگ مشکلات کا شکار ہوئے اور ایک بار پھر ’برین ڈرین‘ کا سسلسلہ شروع ہوگیا۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’پھچلے پانچ سالوں کے اندر ہماری یونیورسٹیاں بہت مشکلات سے گزر رہی ہیں۔ وہاں تحقیق کے لیے فنڈ بھی کم ہو گیا ہے۔ مجموعی بجٹ بھی کم ہوا بلکہ 2008ء کے بعد یونیورسٹیوں کا بجٹ فوری طور پر آدھا کر دیا گیا تھا۔ اگر ہمیں برین ڈرین کو روکنا ہے تو ہمیں قومی پالیسی میں واپس پہلے والی ترجیحات لانا ہوں گی۔‘‘

ڈاکٹر عطاء الرحمان کے مطابق موجودہ دور میں پاکستان کو ’برین ڈرین‘ کے بجائے ’برین گین‘ کی ضرورت ہے اور اس کے لیے مختلف شعبوں میں نمایاں مقام رکھنے والے پاکستا نیوں کو خصوصی معا وضے، مراعات اور سیکیورٹی دے کر بیرون ملک سے واپس لایا جائے۔

بیرون ملک جانیوالے پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا اندازہ ان رقوم کی ترسیل سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو وہ بیرون ملک سے پاکستان بھجواتے ہیں۔ پاکستان کے مرکزی بینک کے مطابق نے گزشتہ مالی سال 2012-13 کے دوران 13.920 ارب ڈالر کی رقوم بیرون ملک سے پاکستان بھجوائیں جوکہ ایک ریکارڈ ہے

مالی سال 2012-13 کے دوران 13.920 ارب ڈالر کی رقوم بیرون ملک سے پاکستان بھجوائیں جوکہ ایک ریکارڈ ہے
مالی سال 2012-13 کے دوران 13.920 ارب ڈالر کی رقوم بیرون ملک سے پاکستان بھجوائیں جوکہ ایک ریکارڈ ہےتصویر: picture-alliance/ Photoshot

اسلام آباد میں قائم ادارہ برائے پائیدار ترقی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستا نیوں کی رقوم پاکستانی معیشت کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوئی ہیں لیکن ہمیں اس سے جڑے دیگر پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک سے اگر بڑی افرادی قوت ہجر ت کر جائے تو اس سے سماجی اثرات کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر عابد کے مطابق: ’’اگر کوئی روزگار کے مواقع ہوتے ہیں تو یہ سننے میں آتا ہے کہ موزوں امیدوار نہیں تھے لوگوں نے اپلائی نہیں کیا تھا یا مناسب امیدواروں کی پاکستان میں کمی ہوگئی ہے۔ تو یہ صورتحال دو طرح سے پاکستان پر اثر انداز ہو رہی ہے اور اس میں توازن رکھنے کی ضرورت ۔ جو پاکستان میں رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہاں روزگار کے مواقع ہونا ضروری ہیں۔‘‘

سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے اعدادو شمار کے مطابق بیرون ملک جانیوالے پاکستا نیوں کی سب سے زیادہ تعداد سعودی عرب اس کے بعد متحدہ عرب امارت،امریکہ ،برطانیہ ،خلیجی ریاستوں(بحرین، قطر،کویت اور عمان) اور یورپی ممالک میں موجود ہے۔