پاکستان کی طرف سے ڈرون حملوں کی افادیت کا اعتراف
31 جنوری 2012پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر باراک اوباما نے پہلی مرتبہ میڈیا پر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امریکا افغان سرحد کے قریب پاکستانی قبائلی علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیے گئے ایک بیان میں کہا: ’’ ڈرون حملوں کی افادیت اپنی جگہ، مگر ہماری پختہ رائے ہے کہ یہ غیر قانونی ہیں اور ان سے الٹا نقصان ہو رہا ہے۔ اسی بناء پر یہ حملے ناقابل قبول ہیں۔‘‘ عبدالباسط کے پیغام میں مزید کہا گیا ہے :’’ہمارا نقطہ نظر ہمیشہ سے بالکل واضح اور اصولی ہے۔‘‘
2010ء میں وکی لیکس کی طرف سے شائع کیے جانے والے امریکی خفیہ سفارتی پیغامات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان کے سول اور فوجی رہنما پس پشت امریکی ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہیں، حالانکہ عوامی سطح پر ان رہنماؤں کی طرف سے ڈرون حملوں کی مذمت کی جاتی ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے پیر 30 جنوری کو گوگل پلس اور یُو ٹیوب پر ویب صارفین کے ساتھ چیٹ کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ امریکا کی طرف سے القاعدہ اوراس کے اتحادیوں کی سرکوبی کے لیے پاکستانی علاقوں پرامریکی ڈرون حملےکیے جاتے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اعلی امریکی شخصیت نے پاکستانی قبائلی علاقے پر بغیر پائلٹ کے جہازوں کے ذریعے کیے جانے والے حملوں کی حیثیت کی تصدیق کی ہے۔ اس سے قبل امریکی شخصیات کسی پلیٹ فارم پر ان حملوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتی تھیں۔
امریکی صدر کے مطابق بہت سارے حملے فاٹا یا فیڈرلی ایڈمنسٹریٹڈ ٹرائبل ایریاز میں کیے گئے اور ان میں القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کو نہایت مہارت اور مشاکی کے ساتھ نشانہ بنایا گیا۔ اوباما نے یہ بھی وضاحت کی کہ ان کے استعمال میں غیر معمولی احتیاط برتی جاتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اوباما مزید بیان کرتے ہیں کہ ڈرون حملے مخصوص ٹارگٹ پر کیے جاتے ہیں اور اس میں خاص طور پر وہ متحرک دہشت گرد ٹارگٹ کیے جاتے ہیں جو امریکا، امریکیوں، امریکی مراکز اور امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کی پلاننگ کرتے ہیں یا ایسے کسی عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: عدنان اسحاق