1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی قریب 98 فیصد آبادی کو ملیریا کے خطرے کا سامنا

25 اپریل 2018

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی کو کسی نہ کسی صورت ملیریا کی بیماری کے خطرے کا سامنا ہے۔ پاکستان میں یہ مرض قبائلی علاقوں کے بعد خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2wbBv
Mücke Malaria
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul

ماہرین کے مطابق آج پچیس اپریل کو منائے جانے والے ملیریا کے عالمی دن کی مناسبت سے یہ بات تشویش کا باعث ہے کہ پاکستانی حکومت ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی مدد سے اس مرض پر قابو پانے کی بھرپور کوششیں تو کر رہی ہے مگر پاکستان کا شمار آج بھی ان ممالک میں ہوتا ہے، جنہیں شدید حد تک اس طبی مسئلے کا سامنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹوں کے مطابق اس ملک میں، جہاں قریب200 ملین کی آبادی میں سے دو تہائی باشندے دیہی علاقوں میں رہتے ہیں، شماریاتی سطح پر ہر دوسرے شہری کو ملیریا کا شکار ہو جانے کا خطرہ ہے۔

مچھر کا جین تبدیل کر دیں، ملیریا ختم ہو جائے گا

نئی ویکسین انسانیت کے لیے ایک نعمت ہو گی

پاکستان میں ہر سال ملیریا کے لاکھوں کیسز، ہزاروں اموات

جرمنی میں ملیریا کے خلاف ویکسین بنا لی گئی ہے

ملیریا کے بارے میں پاکستانی حکومت کے تیار کردہ دو ہزار سولہ کے سالانہ اعداد و شمار کے مطابق ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کی آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کے نصف سے بھی زیادہ تو ہے لیکن وہاں ملیریا کے تصدیق شدہ کیسز کی سالانہ تعداد صرف ایک فیصد کے قریب ہے۔ اس کے برعکس اس مرض کے مریضوں کی سب سے زیادہ سالانہ تعداد ملکی قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ریکارڈ کی جاتی ہے۔

ان دونوں صوبوں اور قبائلی علاقوں کی مقابلتاً تھوڑی آبادی کے باوجود وہاں ملیریا کے سرکاری طور پر ریکارڈ کیے گئے کیسز کی شرح اس لیے بہت زیادہ ہوتی ہے کہ پاکستان کے ان کم ترقی یافتہ حصوں میں صحت عامہ کی سہولیات کی کمی ہے۔

اس کے علاوہ وہاں حکومتی کوششوں کے باوجود اس بارے میں عوامی شعور بھی کم ہے کہ ملیریا جیسی بیماری سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں برسوں سے سلامتی کی بہت خراب صورت حال بھی ایک وجہ ہے کہ وہاں ملیریا کے خاتمے کی کوششیں اتنی کامیاب نہیں ہو سکیں جتنی ہو سکتی تھیں۔

زیادہ کیسز کس علاقے میں

صوبہ سندھ میں ملیریا کے مصدقہ کیسز کی سالانہ تعداد اپنے تناسب کے لحاظ سے فاٹا یا خیبر پختونخوا سے تو کچھ کم ہے لیکن مجموعی طور پر یہ تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ پنجاب میں اس بیماری کے بہت کم کیسز میں سے بہت بڑی تعداد ضلع ڈیرہ غازی خان میں دیکھنے میں آتی ہے۔

پاکستانی وزارت صحت کے زیر انتظام کام کرنے والے ڈائریکٹوریٹ آف ملیریا کنٹرول یا ڈی ایم سی کی طرف سے تیار کردہ سالانہ ملیریا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پورے ملک میں اس بیماری کے ہر سال قریب ایک ملین کیسز ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے اٹھائیس اضلاع ایسے ہیں، جو اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

ملیریا رپورٹ دو ہزار سولہ میں کہا گیا ہے کہ اصولی طور پر اٹھانوے فیصد پاکستانیوں کو ملیریا کا شکار ہو جانے کا خطرہ ہے۔ مجموعی طور پر تیس فیصد یا ساٹھ ملین کے قریب پاکستانیوں کو ملیریا کے شدید خطرے کا سامنا ہے۔ یہ بیماری خاص طور پر ان اضلاع میں بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے، جو پاکستان کی افغانستان اور ایران کے ساتھ قومی سرحدوں پر واقع ہیں۔

ملیریا کیسا مرض ہے اور وہ کیسے پھیلتا ہے، اس بارے میں ملیریا آگاہی پروگرام کے حوالے سے بہت سرگرم، اسلام آباد کے ڈاکٹر اسفندیار خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ملیریا ایک مادہ مچھر سے پھیلنے والا متعدی مرض ہے۔ اس کی وجہ ایک پیراسائٹ ہے، جو پلازموڈیم کہلاتا ہے۔ اس پیراسائٹ کی پانچ اقسام ہوتی ہیں اور ان میں سے سب سے خطرناک پلازموڈیم فیلسی پیرم ہے۔‘‘

ڈاکٹر اسفندیار خان نے کہا، ’’ملیریا ایک مخصوص مچھر اینوفیلیزکے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ اس طرح اس مرض کا جرثومہ مچھر سے مریض کے خون میں پہنچتا ہے، وہاں اس کی افزائش ہوتی ہے اور چند ہی روز میں اس بیماری کی تیز بخار، جسم میں درد، قے، پسینہ آنے، کمزوری اور کپکپی طاری ہونے جیسی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ایسی صورت میں فورا خون کا ٹیسٹ کرانا چاہیے اور مرض کی تشخیص ہو جانے پر بلاتاخیر علاج کرانا ضروری ہوتا ہے۔‘‘

حکومتی کوششیں اور مشکلات

پاکستان میں ملیریا اور اس کی روک تھام کی تازہ ترین صورت حال کیا ہے، اس بارے میں وفاقی وزارت صحت کے نیشنل ملیریا کنٹرول پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بصیر خان اچکزئی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا،  ’’پاکستان میں ملیریا کے سالانہ تقریبا ایک ملین نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ ان میں سے مایئکروسکوپک سطح پر مصدقہ کیسز تقریبا چار لاکھ ہوتے ہیں۔ جو کیسز رپورٹ نہیں ہوتے، وہ زیادہ تر ایسے ہوتے ہیں، جو مقامی ڈاکٹر اپنے کلینکس میں دیکھ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دراصل جو صورت حال ٹی بی کے مرض کی ہے، وہی بخار کی بھی ہے۔ یعنی لوگ بخار ہو تو ٹیسٹ نہیں کراتے، بس دوائی لے لیتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر بصیر خان اچکزئی کے مطابق پورے پاکستان میں تقریباً تین ہزار ایسے بنیادی مراکز قائم ہیں، جہاں ملیریا کی تشخیص کے لیے مائیکروسکوپی اور دیگر ٹیسٹ فری کیے جاتے ہیں اور بیماری کی تصدیق ہو جانے پر مریضوں کا مفت علاج بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس مرض کے غیر رجسٹرڈ کیسز کی بہت بڑی تعداد کس حد تک تشویش ناک ہے اور قومی ملیریا کنٹرول پروگرام پر کتنے مالی وسائل خرچ کیے جاتے ہیں، اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر اچکزئی نے بتایا، ’’ہم اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ جب بھی کوئی مریض بخار کی حالت میں ڈاکٹر کے پاس جائے، تو اس کے فوری ٹیسٹ اور مائیکروسکوپی کی جانا چاہیے تاکہ ملیریا کی تشخیص کی صورت میں فوری علاج شروع کیا جا سکے۔ پاکستان کو گلوبل فنڈ کی طرف سے بھی مالی وسائل مہیا کیے جاتے ہیں، اور اس مقصد کے لیے وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں بھی فنڈز مہیا کرتی ہیں۔ لیکن یہ وسائل کم ہیں۔ پاکستان کے پاس اگر تین سو ملین ڈالر تک کے وسائل ہوں، تو ملیریا سمیت کئی بیماریوں پر مکمل طور پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘‘

ملیریا کے خاتمے کے لیے ایک شخص ہے پرعزم

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ ملیریا پاکستان کے لیے دوسری سب سے بڑی وبائی بیماری بن چکا ہے۔ تو پھر اس مرض کی روک تھام کے لیے کیا احتیاطی اقدامات کیے جانا ضروری ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے راولپنڈی کے سینٹرل ہسپتال کی ڈاکٹر شہلا خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’ملیریا سے دنیا کی آدھی آبادی خطرے میں ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ علاج تو دور کی بات احتیاطی تدابیر پر بھی توجہ نہیں دی جا رہی۔ پاکستان میں یہ مرض مارچ سے مئی اور اکتوبر سے نومبر تک میں زیادہ پھیلتا ہے۔ حکومت اپنی ملیریا آگاہی مہم تو جاری رکھے ہوئے ہے لیکن جب تک عوام اس مہم میں خود شامل نہ ہوں گے، سب کچھ بیکار ہو گا۔‘‘

حفظان صحت انتہائی ضروری

ڈاکٹر شہلا خان کے بقول اگر صفائی کا خیال رکھا جائے، گندگی کا ڈھیرنہ لگایا جائے، تو مچھروں کی افزائش کو روکا جا سکتا ہے۔ لیکن ہر طرف گندگی کے ڈھیر مچھروں اور ملیریا کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ بےحد ضروری بات یہ ہے کہ رات کے وقت باہر جاتے ہوئے پورا جسم ڈھانپا جائے، بچوں کو پوری آستینوں والا لباس پہنایا جائے، کہیں گندا پانی کھڑا نہ ہونے دیا جائے اور ہر ممکن احتیاط کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں، جنہوں نے بڑے متاثرکن حفاظتی اقدامات کیے ہیں، ’’سری لنکا ہی کی مثال لے لیں۔ عالمی ادارہ صحت سری لنکا کو ملیریا فری قرار دے چکا ہے۔ اگر ٹھوس حفاظتی اقدامات کیے جائیں، تو اس بیماری کو ختم کیا جا سکتا ہے۔‘‘

ملیریا کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہو سکے تو نتائج کتنے تکلیف دہ ہو سکتے ہیں، یہ بات راولپنڈی کی رہاءشی نائلہ احمد ذاتی طور پر جانتی ہیں۔ اس مرض نے ان کی چار سالہ بیٹی کی جان لے لی۔

نائلہ احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میری بیٹی راحیلہ بتول کئی دن تک بیمار رہی تھی۔ اسے کبھی بخار ہو جاتا اور کبھی ختم ہو جاتا۔ ہم نے سوچا تھا ڈاکٹر کی دوائی سے ٹھیک ہو جائے گی۔ ہم نے ملیریا کے ٹیسٹ نہیں کرائے تھے۔ بس محلے کی ڈاکٹر سے دوائی لیتے رہے۔ پھر راحیلہ نڈھال ہوتی چلی گئی۔ بالآخر ٹیسٹ کروانے پر پتہ چلا کہ اس کو ملیریا تھا۔ لیکن تب تک شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ پھر مسلسل بیمار ہی رہی تھی۔ اب میں سب سے کہتی ہوں کہ ملیریا یا بخار کو معمولی نہ سمجھیں، پوری احتیاط کریں، ورنہ میری طرح ساری زندگی پچھتائیں گے۔‘‘