1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی اقلیتیں مشکل حالات سے دوچار

16 جولائی 2020

پاکستانی وزیراعظم ملک میں تحمل و برداشت کا فروغ چاہتے ہیں لیکن انتہا پسند عناصر ان کے راستے کی دیوار ہیں۔

https://p.dw.com/p/3fPJp
Pakistan Religion Muslim Hindu
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

حالیہ کچھ عرصے میں اقلیتوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، تاہم ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو اگلے مہینوں میں مزید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان بھی اپنے کسی حد تک قدامت پسندانہ عقائد کی وجہ سے مذہبی بنیادوں پر منقسم ملک کے اندر اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی اہم فیصلہ کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔

حالیہ ہفتوں کے دوران کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو پاکستانی اقلیتی کمیونٹی کو درپیش شدید مسائل اور مشکلات کی عکاس ہیں۔

یہ ملازمت صرف عیسائیوں کے لیے ہے، فوج نے اشتہار واپس لے لیا

400 مندروں کی بحالی: قابل عمل فیصلہ یا کھوکھلا نعرہ؟

مسلم علاقے میں مکان کیوں کرائے پر لیا؟

صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک مسیحی شخص کو اس لیے ہلاک کر دیا گیا کہ اس نے مسلمانوں کے علاقے میں مکان کرائے پر لیا تھا۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے پاکستانی صوبے پنجاب کے مشرقی حصے کے ایک گاؤں میں ایک مسیحی پادری ہارون صادق چیڈا، ان کی بیوی اور بارہ سالہ بیٹے کو انتہا پسند عقیدے والے مسلمانوں نے حملہ کر کے مارا پیٹا۔ اس حملے کے دوران حملہ آور انہیں 'کافر‘ بھی قرار دے رہے تھے۔ چیڈا پر حملے کی وجہ ان کا ایک مسیحی اسکول تعمیر کرنا ہے۔

مندر کی تعمیر روک دی گئی

چند روز قبل اپوزیشن کے ایک سیاستدان پر توہین مذہب کے تحت تھانے میں رپورٹ درج کرائی گئی ہے۔ اپوزیشن کے رہنما کا کہنا تھا کہ تمام مذاہب برابر ہیں اور یہ بات پاکستانی انتہا پسند حلقے کو پسند نہیں آئی۔ ایسی ہی ایک اور پیش رفت یہ ہے کہ اسلام آباد میں ایک ہندو مندر کی تعمیر روک دی گئی کیونکہ اس کی مخالفت میں مذہبی انتہا پسندوں نے واویلا شروع کر دیا تھا۔

وزیر اعظم کی بے نیازی

پاکستان کے حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اقلیتوں پر حملوں کی ایک وجہ وزیر اعظم عمران خان کا مبہم ہونا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک طرف وہ پاکستان میں تحمل و برداشت کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب اکثریتی مسلم آبادی میں اقلیتی کمیونٹی پستی جا رہی ہے اور ان کی حفاظت کے لیے وہ کوئی بڑا قدم اٹھانے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم انتہا پسند علماء کے سامنے کسی حد تک گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی امور میں بھی ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت مسیحی خوف زدہ

حکومت پر دباؤ

پاکستان کے ممتاز تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان پاکستان کا تشخص ایک برداشت کے حامل ملک کا چاہتے ہیں لیکن ایسا اس لیے ہو نہیں پا رہا کہ انہوں نے انتہا پسند حلقے کو قوت فراہم کی ہے اور یہ ممکن ہے کہ وہ ریاستی امور پر بھی رائے دینا شروع کر دیں۔ اس مناسبت سے عمران خان کے ترجمان کو ٹیکسٹ میسج بھی کیا گیا لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ البتہ وزارتِ مذہبی امور کے ترجمان عمران صدیقی نے اقلیتوں کو لاحق تشویش اور دوسری شکایات کو مسترد کر دیا۔ صدیقی کے مطابق ہر مذہب میں جارحانہ سوچ کے افراد ہوتے ہی اور ان سے وزیر اعظم عمران کو کسے قسم کے دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔

سب سے پریشان حال اقلیت احمدی

پاکستان میں قریب سبھی اقلیتوں پر مشکل وقت آیا ہوا ہے لیکن سب سے پریشان حال احمدی کمیونٹی ہے۔ ان کو سخت گیر مسلمان علماء اور ان کے عقیدت مندوں کی شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھی پاکستان میں احمدیوں کو درپیش صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کمیشن نے اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ احمدیوں کو اپنی کتابیں شائع کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر پاکستان کمیشن کی واچ لسٹ سے نکلنا چاہتا ہے تو وہ توہینِ مذہب کے تمام مقدمات کا از سر نو جائزہ لے۔ کمشن کی ایک رکن نادین مینزا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے ایک برداشت والے پاکستان کی منزل بہت دور ہے۔

ع ح، ع ت (اے پی)