1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سفیر کے متنازعہ بیان پر افغانستان ناراض

21 فروری 2019

افغان دفتر خارجہ نے ایک متنازعہ بیان دینے پر پاکستانی سفیر کو بدھ کے روز طلب کر ليا۔ افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر زاہد نصراللہ نے کہا تھا کہ پلوامہ حملے کے بعد بھارتی ردِ عمل سے افغان امن مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Dlt8
Kombobild Flaggen Afghanistan Pakistan
تصویر: Getty Images

افغانستان کے دفتر خارجہ میں پاکستانی سفیر زاہد نصراللہ سے ملاقات کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ کابل میں تعینات پاکستان سفیر کا بیان ’افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے حوالے سے پاکستانی عزم کے منافی‘ ہے۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ایک خود کش حملے میں چالیس سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد نئی دہلی اور اسلام آباد کے تعلقات کشیدہ ہيں۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم جیشِ محمد نے قبول کی تھی۔

اسی تناظر میں منگل انیس فروری کے روز کابل میں پاکستانی سفیر زاہد نصرللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’اگر بھارت نے حملہ کیا تو اس سے خطے کا استحکام متاثر ہو گا اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا‘۔

امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے افغان طالبان سے روابط کے باعث افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستانی کردار اہمیت کا حامل ہے۔ افغانستان کے سابق نائب وزیر دفاع نے پاکستانی سفیر کے بیان کے حوالے سے کہا کہ یہ بیان کابل حکام کے لیے ناراضی کا باعث اس لیے بھی بن رہا ہے کیوں کہ اس سے افغانستان میں پائے جانے والے اُن خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ ملک میں کئی دہائیوں سے جاری خانہ جنگی در اصل علاقائی طاقتوں کی ’پراکسی جنگ‘ کا نتیجہ ہے۔

افغانستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’افغانستان میں امن کے قیام سے متعلق اپنے وعدوں پر عمل کرے اور غیر ضروری بیانات جاری کرنے سے اجتناب کرے‘۔ قبل ازیں افغانستان کے نائب وزیر خارجہ ادریس زمان نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ پاکستانی سفیر کو ان کے بیان پر احتجاج کرنے کے لیے دفتر خارجہ طلب کیا گیا ہے۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد قطر میں پچیس فروری کے روز افغان طالبان کے نمائندوں سے امن مذاکرات کے اگلے دور کے سلسلے میں ملاقات کر رہے ہیں۔ افغان طالبان ان مذاکرات میں کابل حکومت کو یہ کہہ کر شامل کرنے سے انکاری ہیں کہ افغان حکومت امریکا کی کٹھ پتلی ہے۔

ش ح / ع س (روئٹرز، اے پی)