1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سیاست دان امریکا مخالف کارڈ کیوں استعمال کرتے ہیں؟

15 اپریل 2022

پاکستان میں تحریکِ انصاف کی حکومت نو اپریل کو ختم ہوئی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان جاتے جاتے بیرونی سازش کے نام کی چنگاری چھوڑ گئے ہیں جس کی حدت ملک کے سیاسی ماحول میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/49zh4
Pakistan I Protestaktion gegen die USA vor dem US-Konsulat in Lahore
تصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

عمران خان ایسے واحد پاکستانی سیاست دان نہیں ہیں جنہوں نے ملکی سیاست میں امریکہ کی مداخلت کا دعویٰ کر کے عوام میں اشتعال پیدا کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ سے پہلے انہوں نے اپنے ایک عوامی خطاب میں  یہ الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت گرانے کے پیچھے بیرونی مداخلت کار فرما ہے۔ سابق وزیر اعظم کی اس بات سے ان کی حکومت تو نہیں بچ سکی البتہ اس صورتحال نے ان کے دیگر سیاسی مقاصد کو ضرور آگے بڑھایا ہے۔ عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد پشاور میں ان کے پہلے عوامی جلسے کا مرکزی نکتہ ہی یہی تھا کہ 'بیرونی مداخلت نامنظور‘۔ جس کے بعد پاکستان میں 'امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ نے ٹوئٹر پر ٹرینڈ کیا اور جو اب تک جاری ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کی جانب سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ چونکہ وہ واشنگٹن کے ہر حکم کی تعمیل نہیں کرتے تھےاس لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کی یہ سازش رچائی گئی۔ عمران خان نے نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کو 'امریکی کٹھ پتلی‘ قرار دیا۔ تاہم امریکہ کی جانب سے ان تمام الزامات کی تردید کی گئی ہے اور خان صاحب کے مخالفین بھی اس معاملے کو سیاسی بیان بازی قرار دے رہے ہیں۔

Pakistan Protest nach Misstrauensvotum gegen Imran Khan | Karachi
عمران خان نے نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کو 'امریکی کٹھ پتلی‘ قرار دیا۔ تاہم امریکہ کی جانب سے ان تمام الزامات کی تردید کی گئی ہے اور خان صاحب کے مخالفین بھی اس معاملے کو سیاسی بیان بازی قرار دے رہے ہیں۔تصویر: Rizwan Tabassum/Getty Images/AFP

پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت کے الزامات کی تاریخ

'امریکی مداخلت‘ پاکستان کے سیاستدانوں کے لیے طویل عرصے سے ایک سیاسی آلہ رہی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اتحاد، شدید عوامی مخالفت کے باوجود موجود ہے۔ اس دھوپ چھاؤں سے رشتے کو سرد جنگ کے دوران مزید عوامی تنقید کا سامنا رہا جب 9/11 کے بعد بین الاقوامی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو فروغ ملا۔

پچھلی دہائیوں میں کئی پاکستانی رہنماؤں نے بھی واشنگٹن پر ملکی سیاست میں مداخلت کا الزام لگایا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے الزام لگایا کہ امریکہ ایک سازش کے ذریعے انہیں زبردستی عہدے سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔

2007ء میں 'دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے عروج پر پرویز مشرف نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سکیورٹی کے بحران کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا۔ 2011ء میں ایبٹ آباد میں ایک امریکی کارروائی کے نتیجے میں القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہوئی تو اس نے باہمی اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچائی۔ اسی دوران امریکی حکام نے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر واشنگٹن کو انتہائی مطلوب دہشت گرد کو پناہ دینے کا سخت ترین الزام  بھی لگایا۔

پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے بھی امریکہ کو مسلم دنیا کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ واشنگٹن میں واقع ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز کے جنوبی ایشیا کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ اصل پیغام مظلومیت کا ہے جو پاکستان کے سیاسی ماحول سے ماورا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''مذہبی سخت گیر امریکہ دشمنی پاکستان کے سیاستدانوں کے لیے طویل عرصے سے ایک سیاسی آلہ کار رہی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اتحاد  کو اب شدید عوامی مخالفت کا سامنا ہے۔‘‘

پاکستان: عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے خلاف مظاہرے

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کا خیال ہے کہ خان ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں جسے عوام بھی محسوس کر رہی ہے اور ناراضگی کا ایک اور سلسلہ ملک کی سیاسی اشرافیہ تک پھیلا ہوا ہے، جن پر اکثر کرپشن یا نااہلی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے جو اس وقت ہڈسن انسٹیٹیوٹ آف واشنگٹن کے ڈائریکٹر ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکہ کے خلاف بیان بازی ایک سیاسی حربہ ہے جس سے عوام کی توجہ ملکی مسائل کے بجائے بیرونی مداخلت کی جانب مرکوز کر دی جاتی ہے۔

سازشی نظریات اس لیے پروان چڑھتے ہیں کیونکہ اس سے عوام کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ان کے پاس اختیارات کا  فقدان اس لیے ہے کیونکہ کہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے، نا کہ اس لیے کہ ان کے ملک میں کچھ غلط ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکی سازش والی پالیسی کو اس وقت استعمال کیا جب پاکستانی معیشت ڈوبنے کے دہانے پر ہے۔

امریکہ کا موقف

امریکہ  نے تاہم عمران خان کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے حکام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکہ قانون کی پاسداری اور جمہوری قوانین کی حمایت کرتا ہے۔ اور کسی بھی سیاسی پارٹی کو کسی دوسری پارٹی پر فوقیت نہیں دیتا۔‘‘ بحرحال امریکہ پر اس طرح کے الزامات کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات پر برے اثرات مرتب ہوتے آئے ہیں۔  تجزیہ کار کوگلمین  نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ 2009 کا ایک امریکی بل جس کا مقصد شہری امداد میں اضافہ تھا پہلے ہی تناؤ کی وجہ بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا، ''یہ بل متنازعہ ہوگیا اور اس کی وجہ سے پاکستان میں امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے۔ جس میں ممکنہ طور پر عسکری قیادت اور دیگر ریاستی اداروں اہم کردار ادا کیا۔‘‘

حالانکہ یہ امریکہ کی جانب سے یہ ثابت کرنے کی ایک کوشش تھی کہ دونوں مممالک کے مابین تعلقات انتہائی قریبی ہیں لیکن کچھ پاکستانیوں کا یہ خیال ہے کہ اس کے پیچھے واشنگٹن کے دیگر مقاصد کارفرما ہیں۔

استعفیٰ نہ دیا تو تباہی ہو گی، فضل الرحمان

پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے اگلا قدم کیا ہوگا؟

پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ چین اور امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ روایتی حریف ملک بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں۔ لیکن اس تمام صورت حال میں جغرافیائی روکاوٹوں کو بھی مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ چین کی پاکستان سے نزدیکیاں، جبکہ چین امریکہ کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں موجود امریکہ مخالف جذبات پاکستان امریکہ کے درمیان تعلقات میں تناؤ پیدا کر سکتے ہیں۔ 

پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات اور عمران خان کا ایک ایسے وقت پر ماسکو  کا دورہ جب روس اور یوکرین جنگ کے دہانے پر تھے اور اسی دوران پاکستان کا اقوام متحدہ میں روس کی یوکرین میں جاری بربریت کے خلاف ووٹ دینے سے اجتناب بھی ان تمام معاملات کو مزید کشیدہ کرنے کا مؤجب بنا اور اس پس منظر میں روس امریکہ اور چین کے ساتھ پاکستان کے بیک وقت دوستانہ تعلقات کی خواہش کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ہما بقائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ حال ہی میں یہ شکوہ کر چکے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری نہیں کی جا رہی ہیں۔ ہما بقائی کے بقول، ''درحقیقت یہ سلسلہ تعطل کا شکار ہو گیا اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان کا اب بیجنگ کی جانب زیادہ جھکاؤ ہے۔‘‘

لیکن چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات کے باوجود، پاکستان کی فوج، جو سیاست پر بھی اثر رکھتی ہے، اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ پاکستان امریکہ سے دور نہ ہو جائے۔ پینٹاگون نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے ساتھ مثبت تعلقات جاری رکھنے کی توقع رکھتا ہے۔

کوکب شیرانی (ر ب/ا ب ا)