1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی مہاجر ٹرانس جینڈر نتاشا نے اپنی شناخت حاصل کر لی

عاطف بلوچ Karakoulaki, Marianna/Tosidis, Dimitri
7 جولائی 2018

نتاشا کا کیس منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ یہ خاتون پاکستانی مہاجر ہے بلکہ وہ ایک ٹرانس جینڈر بھی ہے۔ وہ پہلی پاکستانی ٹرانس جینڈر ہے، جس نے یونان میں بطور مہاجر اپنی جنسی شناخت کو تبدیل کرانے کا فیصلہ کیا۔

https://p.dw.com/p/30zNX
Griechenland - Transgender Flüchtlinge: Natasha,
تصویر: DW/D. Tosidis

نتاشا کا مہاجرت کا سفر کافی پیچیدہ ہے۔ وہ سن دو ہزار پندرہ میں پاکستان سے فرار ہوئی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسے مسلسل تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا تھا، جس کی وجہ سے اس نے سن دو ہزار پندرہ میں پاکستان سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔

تب اس نے مرد کے طور پر سفر کیا اور ترکی پہنچی۔ نتاشا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں استنبول میں کام کرتی تھی۔ تاہم جب میں باہر جاتی تو لوگ مجھے جسمانی اور زبانی تشدد کا نشانہ بناتے۔ ایک دن انہی لوگوں نے میرے شناختی دستاویزات بھی چھین لیے۔ تب میں نے یونان جانے کا فیصلہ کیا۔‘‘

مارویہ ملک نے تاریخ رقم کر دی

نتاشا لیسبوس پہنچی، جہاں سے وہ جنوبی یونان کے علاقے لاکونیا گئی اور وہاں اس نے ایک فارم پر کام کرنا شروع کیا۔ وہ کچھ پیسے جمع کر کے اپنا سفر جاری رکھنا چاہتی تھی۔ تاہم فارم کے مالک نے اسے اجرت دینے سے انکار کر دیا اور تب نتاشا نے اڈومینی جانے کا فیصلہ کیا۔ مقدونیہ اور یونان کی سرحد پر واقع اس یونانی علاقے میں پہلے سے ہی ہزاروں مہاجرین موجود تھے۔

نتاشا بتاتی ہے، ’’وہاں (اڈومینی میں) ایک پاکستانی مہاجر نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا۔ تب میں صرف اسی وقت اپنے کیمپ سے باہر جاتی تھی، جب مجھے کچھ کھانے کو چاہیے ہوتا تھا‘‘۔ واضح رہے کہ کئی دیگر قدامت پسند ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ٹرانس جینڈرز کو معاشرتی سطح پر ’حقارت‘ کی نظر دے دیکھا جاتا ہے اور انہیں مختلف قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عمومی طور پر انہیں سیکس ورکر کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان کے انسانی وقار کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔

اڈومینی میں قیام کے دوران وہ مسلسل خوف اور تکلیف میں رہی۔ تاہم کچھ ماہ بعد نتاشا کو ایک ہسپانوی رضا کار ملا، جس نے اس کی مدد کی۔ اسے نفسیاتی مدد فراہم کی گئی اور جب نتاشا کو تحفظ کا احساس ہوا تو اس نے کھل کر اظہار کیا کہ وہ مرد نہیں بلکہ ایک خاتون ہے۔ اب نتاشا تیونس کی ایک اور ٹرانس جینڈر گابی کے ساتھ تھیالونسکی میں قیام پذیر ہے، جہاں Eclipse نامی امدادی ادارے کے کارکن انہیں اور دیگر ایسے مہاجرین کو مدد فراہم کرتے ہیں، جو مختلف جنسی میلانات اور رحجانات کے حامل ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں اس نے کہا کہ وہ خود کو مرد نہیں خاتون محسوس کرتی تھی، اِس لیے اُس نے بطور شخص اپنی شناخت تبدیل کرانے کا سلسلہ شروع کیا۔ یونان میں حال ہی میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت ٹرانس جینڈر اپنی جنسی شناخت کو قانونی طور پر تبدیل کرا سکتے ہیں۔ نتاشا کے مطابق، ’’اب مجھے  Eclipse کی مدد حاصل ہے اور میں خوش ہوں۔ یہ بالخصوص ٹرانس جینڈرز کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے۔‘‘

قانونی طور پر جنسی شناخت کی تبدیلی پر پاکستانی مہاجر نتاشا بہت خوش ہے۔ یہ اس کی زندگی کا ایک بہت بڑا موڑ ہے۔ اب وہ خود کو آزاد اور محفوظ تصور کرتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں اس نے کہا، ’’اب میں خوش ہوں۔ مجھے اب مزید کوئی خوف نہیں رہا۔ آخر کار مجھے وہ شناخت مل گئی ہے، جو میں حقیقی طور پر ہوں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں