1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی وزیر قانون نے سرعام پھانسی کی مخالفت کر دی

8 فروری 2020

پاکستان کے وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم نے بھی سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی سزا نہ صرف پاکستانی آئین بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔

https://p.dw.com/p/3XSSE
Afghanistan Galgen in Kabul
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali

پاکستان کے وزیر قانون و انصاف نے اس قرارداد کی مخالفت کر دی ہے، جو گزشتہ روز منظور کی گئی تھی۔ گزشتہ روز پاکستان کی قومی اسمبلی میں بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد منظور کر لی گئی تھی۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف کا پاکستان کے مقامی ٹیلی وژن دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سن 1994 میں ملکی سپریم کورٹ سرعام پھانسی کی سزا کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔ ان کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ سرعام پھانسی دینا آئین کے ساتھ ساتھ شریعت کی بھی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وزارت قانون آئین اور شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنائے گی۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اس قرارداد کی منظوری کے بعد انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے بھی اس قرار داد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ''سرعام پھانسی سے متعلق قومی اسمبلی میں قرارداد پارٹی بنیادوں پر منظور کی گئی ہے۔ اسے حکومتی حمایت حاصل نہیں تھی لہذا اسے ایک ذاتی عمل سمجھا جائے۔ ہم سے بہت سے لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہماری وزارت انسانی حقوق اس کی سختی سے مذمت کرتی ہے۔ بدقسمتی سے میں اس وقت ایک میٹینگ میں تھی اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں شامل نہیں ہو سکی۔‘‘

دوسری جانب پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس او ٹیکنالوجی فواد چودھری نے بھی اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ ان کا اپنے ٹویٹر پیغام میں کہنا تھا، ''دنیا کی تاریخ میں یہ سب ہو چکا ہے، اس طرح کی سزائیں قبائلی معاشروں میں ہوتی ہیں، جہاں انسان اور جانور ایک برابر ہیں۔ مہذب معاشرے مجرموں کو سزا سے پہلے جرم روکنے کی تدبیر کرتے ہیں، اس طرح کی سزاؤں سے معاشرے بے حس ہو جاتے ہیں اور سزا اپنا اثر کھو دیتی ہے۔‘‘

 ان کا مزید کہنا تھا کہ سزاؤں کی بجائے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے دیگر پروگرام شروع کیے جانے چاہئیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان‘ نے لکھا ہے، ''سن 1983ء میں پپو نامی لڑکے کے قاتل کو لاہور میں سرعام پھانسی دی گئی تھی۔ اس کی لاش سارا دن لٹکی رہی لیکن نہ تو اس ملک میں اور نہ ہی لاہور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کے قتل کے واقعات ختم ہوئے۔‘‘

گزشتہ روز وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے قومی اسمبلی میں بچوں کیساتھ زیادتی کے واقعات روکنے کے لیے قرارداد پیش کی تھی، جس میں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والوں کو سرِعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔