1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور، ’ہیلپ لائن سے رابطہ کرنے والی دردانہ کہاں گئی؟‘

2 اپریل 2017

سوات کی رہائشی دردانہ نے دوسری شادی اپنی مرضی سے کی تو اس کے گھر والوں نے دھمکی دی کہ اگر اس نے اپنے نئے شوہرسے ملنے کی کوشش کی تو اسے جان سے مار دیا جائے گا۔ تاہم گھر میں قید دردانہ کے پاس موبائل فون موجود تھا۔

https://p.dw.com/p/2aWNF
Pakistan Symbolbild Frau Schleier Tochter Internet Handy
تصویر: NICOLAS ASFOURI/AFP/Getty Images

سوات سے تعلق رکھنے والی دردانہ کو کسی طرح معلوم ہوا کہ پشاور میں خواتین کے لیے ایک ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے۔ ایک دن جب وہ گھر میں اکیلی تھیں تو انہوں نے اس ہیلپ لائن پر فون کیا اور اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی۔ دردانہ کے ساتھ گفتگو کرنے والی نایاب حسن تھیں، جنہوں نے دردانہ کو نہ صرف نفسیاتی مدد فراہم کی بلکہ ساتھ ہی انہیں بتایا کہ انہیں اس مشکل وقت میں کس طرح کا رویہ ظاہر کرنا چاہیے۔

اے عورت تجھے سلام

افغان خاتون سیما غنی کا منفرد اعزاز

افغان طالبان نے ایک اور خاتون کو سنگسار کر دیا

خیبرپختونخوا پاکستان کا ایسا پہلا صوبہ ہے، جہاں خواتین کی مدد کے لیے ایک ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے۔ یکم مارچ کو شروع کی جانے والی یہ ہیلپ لائن اگرچہ اس وقت چھوٹی سطح پر آپریٹ کر رہی ہے تاہم مستقبل میں توقع ہے کہ اس کا دائرہٴ کار وسیع کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت اس ہیلپ لائن میں دو خواتین ہی ٹیلی فون سنتی ہیں۔ وہ موصول ہونے والی ٹیلی فون کالز سے معلومات جمع کرتی ہیں اور ایک خاتون وکیل شاندانہ نعیم رابطہ کرنے والی خواتین کو مفت قانونی مشاورت فراہم کرتی ہیں۔

اس ہیلپ لائن میں ٹیلی فون کالز کا اندارج انتہائی محتاط طریقے سے کیا جاتا ہے۔ فی الحال اس ہیلپ لائن میں اوسطاً ایک کال روزانہ موصول ہوتی ہے۔ فون کرنے والی کچھ خواتین کی کہانیاں تو دل دہلا دینے والی ہیں۔ انیسہ نامی ایک خاتون نے اس سینٹر میں فون کر کے بتایا کہ کچھ سال قبل اس کے شوہر نے اس پر تیزاب پھینکا اور اس کا زیور اور تمام رقوم لے کر سعودی عرب چلا گیا۔ تیزاب کے حملے کے باعث اس کا چہرہ تو مسخ ہوا ہی لیکن ساتھ ہی اس کی بینائی بھی متاثر ہوئی۔ انیسہ نے کہا کہ اسے اپنے علاج کی خاطر مالی مدد درکار ہے۔

شاندانہ کے مطابق انہوں نے آسیہ کے علاج میں مدد کی۔ اس کیس سے اس خاتون وکیل کو احساس ہوا کہ خواتین کے مسائل کے حل کی خاطر ایک وسیع نیٹ ورک کی ضرورت ہے، جس میں طبی مراکز بھی شامل ہونے چاہییں، جو اس طرح کے واقعات میں خواتین کو مفت طبی مدد فراہم کریں۔ شاندانہ کے مطابق اس ہیلپ لائن کو موصول ہونے والی زیادہ تر کالز میں خواتین کو پراپراٹی سے متعلق تنازعات کا سامنا ہوتا ہے۔

یہ ہیلپ لائن ستر سالہ پارلیمنٹیرین معراج ہمایوں خان کی کوششوں کا ثمر ہے۔ اس خاتون سیاستدان کا کہنا ہے، ’’ہمیں ان خواتین کے مسائل کا علم ہونا چاہیے۔ اس تناظر میں کئی حل میرے ذہن میں موجود ہیں لیکن مسائل کی شکار خواتین کو خود حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ تاہم انہیں احساس ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں کسی گھریلو تنازعے کی رپورٹ درج کرانا بھی ایک مشکل امر ہے، انصاف تو دور کی بات ہے۔

شاندانہ نعیم نے دردانہ سے کہا تھا کہ پولیس سے خود رابطہ کرے یا اپنے نئے شوہر کو کہے کہ وہ قانون کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ دردانہ اور شاندانہ کی یہ گفتگو چھ مارچ کو ہوئی تھی۔ تاہم اس کے بعد اس ہیلپ لائن کا دردانہ سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔ ہیلپ لائن کی طرف سے جب بھی دردانہ کو ٹیلی فون کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو دردانہ کا فون بند ہوتا ہے یا کوئی نہیں اٹھاتا۔

انتظامی مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے معراج ہمایوں خان کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق ممکن نہیں کہ اگر کوئی خاتون پولیس سے رابطہ کرتی ہے تو کیا اس کی مدد کی جائے گی یا مسائل سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والی اس خاتون کو دوبارہ اس کے گھر والوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے مسائل کے حل کی خاطر پولیس، عدلیہ اور دیگر متعلقہ حکومتی اداروں کو بھی ساتھ ملانا ہو گا۔