1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پلوامہ حملہ اور بھارت کا ثقافتی ردعمل

شیراز راج
20 فروری 2019

پلوامہ میں دہشت گردانہ حملے کے بعد پاک بھارت ثقافتی رشتوں پر ہونے والی ’سرجیکل سٹرائکس‘ سے دہشت گردی، انتہا پسندی اور جنونی قوم پرستی میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو گا۔

https://p.dw.com/p/3Dhoc
Bollywood Schauspieler Fawad Khan (m) (Ausschnitt)
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta

گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستان اور بھارت کے امن پسند حلقوں میں، خصوصاﹰ کرتارپور راہداری کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں امید کی نئی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ اسی دوران خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے قدیم ہندو مندر، پنج تیرتھ کو قومی ورثہ قرار دینے کے اعلان کا خیر مقدم کیا گیا۔ غالباﹰ اسی مثبت صورت حال میں پاکستانی گلوکار شفقت امانت علی نے تیس جنوری کو این ڈی ٹی وی کو ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا  تھا، ’’اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت پاکستانی فنکاروں پر سے پابندی اٹھا لے۔‘‘

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آل انڈیا سینما ورکرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی فنکاروں پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیم، مہاراشٹر ناونرمان سینا کے ’حکم‘ پر ٹی سیریز، سونی میوزک، وینس اور ٹپس جیسی میوزک کمپنیوں نے پاکستانی گلوکاروں کے نغمے اپنی فہرستوں اور یوٹیوب چینل سے خارج کر دیے ہیں۔

Öffnung Kartarpur-Korridor zwischen Indien und Pakistan
کرتارپور راہداری کھولے جانے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوتے دکھائی دے رہے تھےتصویر: AFP/Getty Images/A. Ali

اجے دیوگن نے اپنے فلم ’ٹوٹل دھمال‘ کو پاکستان میں ریلیز نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ راجھستان کرکٹ ایسوسی ایشن نے پاکستانی کھلاڑیوں کی تصاویر ہٹا دی ہیں۔ بھارتی کرکٹر ہربھجن سنگھ کا مشورہ ہے کہ بھارت آئندہ ورلڈ کپ کے دوران پاکستان کے ساتھ میچ کھیلنے سے انکار کردے۔ ماضی کے ایک کرکٹر اور موجودہ سیاست دان، نوجوت سنگھ سدھو کو معروف کامیڈی شو، کپل شرما شو، سے علیحدہ کر دیا گیا ہے کیوں کہ انہوں نے یہ کہہ کر ’قومی جذبات‘ کو ٹھیس پہنچائی تھی کہ ’دہشت گردی کا کوئی دین، مذہب یا قوم نہیں اور مٹھی بھر لوگوں کے اقدام کی وجہ سے پوری قوم کو قابل نفرت یا مستوجب سزا نہیں قرار دیا جا سکتا۔‘

بیتے دنوں کی لاش پہ اے دل، میں روتا ہوں، تو بھی رو

اس خوب صورت مصرعے کے خالق، ترقی پسند اور انسان دوست شاعر کیفی اعظمی کی صد سالہ تقریبات کا اہتمام کراچی آرٹس کونسل نے24 اور 25 فروری کو طے کیا تھا۔ اس دو روزہ تقریب میں کیفی اعظمی کی بیٹی، اداکارہ شبانہ اعظمی اور ان کے شوہر، معروف شاعر اور مکالمہ نویس، جاوید اختر بطور مہمان خصوصی مدعو تھے۔ تاہم پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں، شبانہ اعظمی اور جاوید اختر نے شرکت سے انکار کردیا اور کراچی آرٹس کونسل کو یہ تقریب منسوخ کرنا پڑی۔

شبانہ اعظمی کی ٹویٹ کے مطابق، ’پلوامہ حملے کے بعد میرا دل دکھ اور تکلیف سے چور ہے۔ پہلی مرتبہ مجھے اپنا عزم کمزور پڑتا دکھائی دیا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کا باہمی میل ملاپ دونوں ریاستوں کو راہ راست پر لا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ایسی صورت حال میں ثقافتی روابط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جب ہمارے فوجی ہمارے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ میں سوگوار خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہوں۔‘ ایک دوسرے ٹویٹ میں انہوں نے کہا، ’ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سرحدوں کے دونوں جانب کے لوگ ایسے حالات کا شکار ہیں جنہیں پیدا کرنے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔‘

Shabana Azmi Indien Bollywood
شبانہ اور جاوید اختر کے انکار کے بعد کراچی میں کیفی اعظمی پر کانفرنس منسوخ کرنا پڑیتصویر: Suhail Waheed

کراجی آرٹس کونسل کے سربراہ، احمد شاہ کے مطابق، ’’ہندوستان اور پاکستان میں تہذیبی سطح پر بہت کچھ مشترک ہے۔ امیر خسرو، کالی داس، کبیر داس، لال شہباز قلندر، خواجہ معین الدین چشتی، غالب، اور میر تقی میر جیسے ہزاروں فنکار ہیں، جو ہمارا مشترکہ ورثہ ہیں اور جسے کوئی تقسیم نہیں کر سکتا۔ ہمیں انسان دوستی کے اس ورثہ کو تھامے رہنا ہے۔ بدقسمتی سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت آج انتہا پسندی کی آماجگاہ بن گئی ہے۔‘‘ پاکستانی فلم کے اداکار شان شاہد کے مطابق، ’’دراصل یہی وقت ہے کہ آپ یہاں آئیں اور ہمارے ساتھ محبت اور اعتماد کا اظہار کریں۔ یاد رکھیے کہ نفرت سے صرف الیکشن جیتا جا سکتا ہے۔ ہم اس حملہ میں ہلاک ہونے والے تمام انسانوں کی موت پر تعزیت کرتے ہیں۔‘‘

بالی ووڈ کی متنازعہ اداکارہ، کنگنا راوت کے لفظوں میں، ’’بھارت آج لہو لہو ہے۔ ہمارے بیٹوں کا قتل کرکے ہمارے جسموں میں گویا چھرا گھونپا گیا ہے۔ اس وقت عدم تشدد اور امن کی بات کرنے والے کا منہ کالا کرنا چاہیے۔ پاکستان پر پابندی نہیں بلکہ اسے تباہ کرنے پر توجہ مبزول کریں۔‘‘ اس کے جواب میں حمزہ علی عباسی کا کہنا تھا، ’’ہم نے دہشت گردی کے خلاف سترہ برس لڑائی لڑی اور جیتی کیونکہ ہم نے محسوس کیا کہ دوسروں پر الزام دینے کی بجائے اپنا گھر درست کرنا چاہیے۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرو، اور ہم سے بات کرو، اگر جنگ کرو گے تو پھر،۔۔۔۔اللہ اکبر۔‘‘ رنگ ریزا کے اداکار، گوہر رشید کا دعوی تھا کہ، ’پاکستانی قوم جنگ سے ڈرتی نہیں بلکہ پر جوش ہو جاتی ہے۔‘

دونوں طرف کے قوم پرست فنکاروں کو غالبا اندازہ نہیں کہ یہ جنگ روایتی نہیں بلکہ نیوکلئر ہو گی۔

ہم یہاں محبت بانٹنے آئے تھے

اکتوبر 2015 میں جب ممبئی اور پونا میں پاکستان کے مایہ ناز غزل گائیک، غلام علی کے کنسرٹ کو شیو سینا کے احتجاج کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا تو ان کے ہزاروں مداحین کو شدید صدمہ ہوا۔ تین ہزار سیٹوں کے ہال کی تمام ٹکٹیں بک چکی تھیں۔ شیو سینا کے راہنما، ادتیہ ٹھاکرے نے تب کہا تھا، ’’دہشت گردی اور ثقافتی رشتے ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘ غلام علی کا کہنا تھا، ’’ہم یہاں محبت بانٹنے آئے تھے۔ موسیقی انسانوں کو قریب لاتی ہے۔‘‘

اس کے ایک برس بعد پٹھانکوٹ اور اُڑی میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ اُڑی واقعہ کے بعد مہاراشٹر ناونرمان سینا نے پاکستانی فنکاروں کو اڑتالیس گھنٹوں کا نوٹس دیا کہ وہ بھارت چھوڑ کر چلے جائیں۔ معروف ہدایت کار کرن جوہر کو ویڈیو پیغام کے ذریعے آئندہ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ کام نہ کرنے کا وعدہ کرنے اور آرمی ویلفئیر فنڈ میں ایک ملین ڈالر جمع کرانے کے اعلان کے بعد اپنی فلم ’اے دل ہے مشکل‘ ریلیز کرنے کی اجازت ملی جس میں پاکستانی اداکار فواد خان نے کام کیا تھا۔ اس کے جواب میں پاکستان میں پیمرا نے 19 اکتوبر 2016 کو تمام بھارتی ڈراموں اور فلموں وغیرہ پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کر دی کہ، ’بھارتی ڈراموں کا مواد قابل اعتراض اور نظریہ پاکستان کے خلاف ہے۔‘ یاد رہے کہ اس سے قبل پرویز مشرف کی حکومت نے سن 2008 میں بھارتی فلموں پر عاید پابندی ختم کی تھی جسے 40 برس قبل 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد نافذ کیا گیا تھا۔

پریشر گروپ دونوں طرف ہیں

مذکورہ بالا کانفرنس کا آغاز کیفی اعظمی کے والد مضطر خیر آبادی پر لکھے گئے ایک مقالہ سے ہونا تھا جسے پاکستانی محقق، عقیل عباس جعفری نے لکھا تھا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’حقیقت یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں لیکن دونوں طرف پریشر گروپ اس قدر مضبوط ہیں کہ فنکار مجبور ہو جاتے ہیں۔ اچھے کام بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر زرداری دور میں ایک معاہدہ ہوا تھا کہ 65 برس سے زائد عمر کے شہریوں کو بارڈر پر ویزا ملے گا اور ان پر پانچ شہروں کی پابندی بھی نہیں ہو گی۔ لیکن اس معاہدے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ گزشتہ دنوں جب نند کشور وکرم پنڈی میں اپنے آبائی گھر گئے تو رو پڑے۔ لیکن ہمارے رشید امجد بھی رو رہے تھے کہ وہ بھارتی زیر انتظام کشمیر سے ہجرت کر کے آئے تھے اور وہاں کبھی نہیں جا سکے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ دونوں طرف کا میڈیا لوگوں کو قریب لانے کی بجائے جنگ کا ماحول بنا دیتا ہے۔ ایسے ماحول میں امن، محبت اور بھائی چارہ کی بات کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔‘‘

Film Zinda Bhaag
نصیر الدین شاہ نے پاکستانی فلم زندہ بھاگ سمیت کئی دیگر فلموں میں اداکاری کیتصویر: Farjad Nabi

پاکستان کی معروف رقاصہ اور حقوق نسواں کی کارکن شیما کرمانی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’امن ہر فنکار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم ثقافتی میل ملاپ سے ہی انتہا پسندی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے امن پرست فنکار اور انسانی حقوق کے کارکن کئی دہائیوں سے جدوجہد کر رہے ہیں جو جاری ہے اور جاری رہے گی۔ شبانہ اور جاوید نے بھی اس خطہ میں امن کے فروغ میں لازوال کردار ادا کیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ہم سب کو امن چاہیے، جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو اردو کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انجمن ترقی پسند مصنفین کے راہ نما عابد حسین عابد کا کہنا تھا، ’’کیفی اعظمی ہماری تحریک کے معماروں میں سے تھے۔ آج کی جنونیت کچھ نئی نہیں۔ سات دہائیوں پہلے بھی یہی صورت حال تھی اور اس وقت بھی ہم نے یہی کہا تھا کہ جنوبی ایشیا کو جنگ و جدل نہیں بلکہ خوش حالی اور انسانی برابری کی ضرورت ہے۔ بظاہر انتہا پسندی کی طاقتیں پاکستان اور بھارت، دونوں طرف بہت مضبوط ہیں لیکن یہ ہزاروں برسوں کے انسان دوست اور ترقی پسند تہذیبی ورثہ کو شکست نہیں دے سکتے۔‘‘