1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب: شریف خاندان کا اقتدار ختم، عثمان بزدار نئے وزیر اعلی

19 اگست 2018

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سردار عثمان خان بزدار کو صوبے کا نیا وزیر اعلی منتخب کر لیا گیا ہے۔ ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے پس ماندہ علاقے تونسہ شریف سے ہے۔

https://p.dw.com/p/33OPt
تصویر: T. Shahzad

اس انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار عثمان بزدار کو 186 ووٹ ملے۔ انہیں پاکستان مسلم لیگ قاف اور آزاد امیدواروں کی حمایت بھی حاصل تھی جبکہ ان کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ نون کے امیدوار میاں حمزہ شہباز 159 ووٹ حاصل کر سکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب اسمبلی کے قائد ایوان کے اس انتخاب میں غیرجانبدار رہی ہے۔ سردار عثمان کے وزیراعلی پنجاب بننے سے اس صوبے میں شریف فیملی کے کئی عشروں پر پھیلے ہوئے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

سردار عثمان بزدار اس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ قاف اور مسلم لیگ نون میں بھی شامل رہے ہیں۔ وہ پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔ سن 2013 میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن وہ یہ الیکشن ہار گئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف سے ان کی وابستگی پرانی نہیں ہے۔ وہ سن 2018 کے انتخاب سے کچھ عرصہ پہلے ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ وہ تونسہ کی تحصیل ناظم بھی رہے ہیں۔

 

Pakistan Lahore - Usman Buzdar wurde zum Ministerpräsidenten gewählt.
تصویر: T. Shahzad

وزیراعلی پنجاب منتخب ہونے کے فوراً بعد پنجاب اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے سردار عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ گڈ گورننس کا فروغ اور صوبے سے کرپشن کا خاتمہ ان کی اہم ترجیحات میں شامل ہو گا۔ انہوں نے مقامی حکومتوں کے نظام کو موثر بنانے اور پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کا بھی وعدہ کیا۔ انہوں نے پنجاب اسمبلی کے ارکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارے ارکان اپنے اپنے حلقوں میں وزیراعلی ہوں گے اور ترقی کے سفر میں یہ سب حکومت کے ساتھ ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے اور ان کی مثبت تجاویز کو قبول کریں گے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما میاں حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ آج کے مینڈیٹ میں دھاندلی کی ملاوٹ ہے۔ ان کے بقول آر ڈی ایس نظام کی خرابی کی آڑ میں جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کرپشن ثابت نہ ہونے پر بھی ملک کے لیے شاندار خدمات سرانجام دینے والے نواز شریف کو سزا سنا دی گئی۔

پنجاب اسمبلی میں اتوار کی صبح سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی طرف سے ارکان اسمبلی کے اعزاز میں پرتکلف ناشتے کا اہتمام کیا گیا۔ قائد ایوان کے انتخاب کے لیے انتخابی عمل کا آغاز سوا گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اس دوران پنجاب اسمبلی کا ایوان شدید بد نظمی اور احتجاج کے باعث مچھلی منڈی بنا رہا۔ نون لیگ کے ارکان نے سپیکر کی کرسی کے سامنے اکٹھے ہو کر شدید نعرے بازی کی۔ اس موقع پر شرم کرو حیا کرو وزیر اعلٰی رہا کرو کے نعرے بھی سنائی دیے۔

 وزیر اعلی منتخب ہونے سے پہلے میڈیا میں عثمان بزدار کے خلاف ایک بڑی پراپیگنڈا مہم دیکھنے میں آئی تھی۔ اس مہم کے دوران ان کے کرپشن اور قتل کے ایک مقدمے میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ تاہم عمران خان نے ان سارے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔

Pakistan Lahore - Usman Buzdar wurde zum Ministerpräsidenten gewählt.
تصویر: T. Shahzad

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے روزنامہ خبریں کے ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر میاں غفار نے کہا،’’ پتا نہیں کیوں سردار عثمان بزدار کے حوالے سے عوامی توقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ان کے پاس آزادانہ کام کرنے کے کتنے مواقع ہوں گے۔‘‘ ان کے مطابق سردار عثمان کواس سوال کا جواب دینا ہو گا کہ ان کے والد تین مرتبہ اسی علاقے سے ممبر صوبائی اسمبلی رہنے کے باوجود اپنے علاقے میں شہریوں کو کیوں بنیادی شہری سہولتیں فراہم نہیں کروا سکے۔

 صوبہ پنجاب کے بیسویں وزیر اعلی عثمان بزدار کا انتخابی حلقہ ڈیرہ غازی خان کے ایک ایسے علاقے میں واقع ہے، جو بجلی، جدید روڈ نیٹ ورک اور معیاری تعلیمی و طبی کے ساتھ ساتھ بنیادی شہری سہولیات سے بھی محروم ہے۔

میاں غفار کے مطابق ایک تو یہ منطق ہی غلط ہے کہ کسی کو صرف علاقے کی پسماندگی کی وجہ سے ہی وزیر اعلی بنا دیا جائے۔ ان کے بقول یہ درست ہے کہ پارٹی کا ایک دھڑا ان کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے،’’ ان کے پاس حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ ان کو راہ راست پر لانا بہت آسان ہے۔‘‘ ان کے بقول سردار عثمان کی اصل خوبی یہ ہے کہ وہ ہر حال میں خوش رہیں گے اور محمد علی جونیجو بننے سے گریز کریں گے۔

Pakistan Hamza Sharif
تصویر: Liu Jin/AFP/Getty Images

جنوبی پنجاب میں ایک سرائیکی چینل کے لیے کام کرنے والے ایک صحافی عظمت بزدار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سردار عثمان کو ریموٹ کنٹرول سے چلایا جا سکتا ہے ان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اتنے بھی بھولے نہیں ہیں اور وہ اس ضمن میں سرپرائز بھی دے سکتے ہیں۔

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں ایسی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف پنجاب حکومت کو چار رکنی کمیٹی کے ذریعے چلانے کا سوچ رہی ہے۔ اس کمیٹی میں وزیر اعلی پنجاب کے علاوہ، پنجاب کے گورنر چوہدری سرور، پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الہی اور پنجاب کے متوقع سینیئر منسٹر علیم خان شامل ہوں گے۔

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ تو واضح نہیں ہے کہ سردار عثمان کی بطور وزیراعلی کارکردگی کیسی رہے گی۔ لیکن ایک بات قطعیت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس ذمہ داری کے ملنے کے بعد اب سردار عثمان سرائیکی صوبے کی قیادت کے اہل تو ہو ہی گئے ہیں۔