1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس حملوں سے ایشیائی جہادی حوصلہ پکڑ سکتے ہیں

شامل شمس ⁄ عابد حسین18 نومبر 2015

مشرق وسطیٰ میں بین الاقوامی کوششوں سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو کم زور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ دوسری جانب خطرہ ہے کہ بعض ایشیائی ملکوں میں قائم جہادی گروپ پیرس حملوں سے حوصلہ پکڑ سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1H7gf
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Suna

دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ اِن کوششوں میں ہے کہ وہ شام اور عراق کے بعد افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی قدم جما سکے۔ بظاہر ابھی تک اِس جہادی گروپ کو زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے لیکن ایسا امکان ہے کہ مستقبل میں اس عسکریت پسند گروپ کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ اِس کی ایک وجہ پیرس حملے ہیں، جہاں 130 کے قریب ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ عسکریت پسندوں کے نزدیک کسی یورپی ملک میں جہادیوں کی یہ ایک ’کامیاب‘ کارروائی ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ پیرس حملوں سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ اپنی جہادی سرگرمیوں سے نئے جہادیوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے عسکریت پسند گروپوں بشمول طالبان اور القاعدہ کے تشخص کو دھندلانے میں بھی کامیاب ہو سکتی ہے۔ اپنے تشخص کو بڑھانے میں وہ شام اور عراق کے وسیع علاقے پر قبضہ کرنے کے علاوہ براعظم یورپ کے قلب میں یعنی پیرس میں ایک انتہائی بڑے دہشت گردانہ حملے کر کے سوا سو سے زائد افراد کو ہلاک کر چکی ہے۔ اِسی باعث اب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہادیوں کے مزید خطرناک حملوں کے شرکاء ایشیائی ملکوں سے سامنے آ سکتے ہیں۔

Lashkar-e-Taiba Afghanistan Taliban
سابقہ لشکرِ طیبہ اور موجودہ جماعت الدعوہ بھی خود کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی حلیف قرار دیتی ہےتصویر: AP

امریکا میں مقیم اسلامی انتہا پسندی کے ماہر عارف جمال نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیرس حملے کے علاوہ دوسری دہشت گردانہ کارروائیوں سے افغانستان اور پاکستان کے اسلامی گروپوں کو خاصا حوصلہ مل سکتا ہے اور نئی بھرتی کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ جمال کا خیال ہے کہ پیرس حملوں سے دوسرے ملکوں کے جہادی بھی تقویت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اُن کے خیال میں پیرس حملے اِس تناظر میں اہم ہیں کہ یہ جہادی سرگرمیوں کو وسعت دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

عارف جمال کے مطابق جنوبی ایشیا میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے واضح حمایت دکھائی دیتی ہے اور افغانستان کے زیادہ تر سلفی اور وہابی افراد پہلے ہی اِس کی صفوں میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ جمال کے مطابق افغان صوبوں نورستان، کنڑ اور ننگرہار میں اِس جماعت کی حمایت میں اضافے کے ساتھ ساتھ حامیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سابقہ لشکرِ طیبہ اور موجودہ جماعت الدعوہ بھی خود کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی حلیف قرار دیتی ہے۔ جمال کے مطابق پاکستانی وہابی مسلک کی مساجد میں کھلم کھلا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادی ایجنڈے کا پرچار جاری ہے۔

اُدھر بنگلہ دیش میں کئی دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور اُس کے اتحادی جہادی گروپ قبول کر چکے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ مقامی سطح پر حکومت اِس صورت حال کو خاطر میں نہیں لا رہی لیکن بنگلہ دیشی امور کے ماہرین اِس مؤقف سے متفق نہیں ہیں۔ یورپی ملک بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں قائم ساؤتھ ایشیا ڈیموکریٹک فورم (SADF) کے ڈائریکٹر ریسرچ زیگفریڈ او وولف کا کہنا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ بنگلہ دیش میں نمو پا رہی ہے اور اسلامک اسٹیٹ اور النصرہ فرنٹ کے عسکری آپریشن کے دوارن بنگلہ دیشی افراد کی گرفتاریاں اِس کا واضح ثبوت ہے۔ تجزیہ کار وولف کے خیال میں پیرس حملوں کے بعد چینی علاقے سنکیانگ کے ایغور عسکریت پسند بھی مزید تحریک پکڑ سکتے ہیں۔