1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین نے انتہائی جدید لیزر کلاشنکوف تیار کر لی

6 جولائی 2018

چینی سائنس دانوں نے مبینہ طور پر ایسی بے آواز لیزر رائفل تیار کر لی ہے، جو ایک کلومیٹر فاصلے تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ اس خطرناک ہتھیار سے کسی بھی شخص کے کپڑوں، جلد یا تیل کے ذخیروں کو فوراﹰ آگ لگائی جا سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/30xG0
ZKZM-500, Waffe von ZKZM aus China
تصویر: ZKZM-500,Handout

یہ پیش رفت کسی سائنس فکشن فلم کا حصہ نہیں ہے۔ چینی سائنسدان ZKZM-500 نامی رائفل کو لیزر کلاشنکوف میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس بندوق میں گولیوں اور بارود کی بجائے طاقتور بیٹریاں استعمال کی جاتی ہیں۔ چین کے مشہور اخبار ’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘ کے مطابق رائفل سے نکلنے والی لیزر شعاعیں انسانی آنکھ سے پوشیدہ رہتی ہیں اور چند سیکنڈز میں ہی کپڑوں کو آگ لگا دیتی ہیں۔

 جرمن اخبار ’دا ویلٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ’’کپڑوں کو فوری طور پر آگ لگ جاتی ہے اور انسان بھی جلنا شروع ہو جاتا ہے۔‘‘ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق چاہے کپڑے ہوں یا جلد، یہ جدید ترین رائفل اسے فوری طور پر جلا کر بھسم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ یہ ہتھیار ’شیان انسٹیٹیوٹ آف آپٹکس اینڈ پریسیئن انجینئرنگ‘ نے چینی اکیڈمی آف سائنسز کے تعاون سے تیار کیا ہے اور ابھی تک یہ ایک پروٹوٹائپ ہی ہے۔ چینی اخبار نے اس نئے ہتھیار کا نام لیزر  AK-47 بتایا ہے۔

سرکاری سطح پر جاری ہونے والے بیان کے مطابق یہ رائفل ’قاتلانہ ہتھیار‘ نہیں ہے کیوں کہ اس کا مقصد کسی شخص کو ہلاک کرنا نہیں بلکہ ہدف کو ’غیرفعال بنانا یا لڑائی کے قابل نہ رہنے دینا ہے۔‘‘ اس رائفل کا وزن صرف تین کلوگرام ہے اور یہ ہر دو سکینڈ بعد ایک ہزار فائر کر سکتی ہے۔ اس کے بعد بیٹریاں ختم ہو جاتی ہیں اور نئی بیٹریاں لگانی پڑتی ہیں۔

اس لیزر کلاشنکوف سے ایک کلومیٹر کے اندر اندر ہدف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور لیزر شعاعیں حفاظتی شیشوں سے بھی گزر سکتی ہیں۔ چینی اخبار کے مطابق چینی اکیڈمی آف سائنسز کا کوئی بھی عہدیدار اس حوالے سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ تاہم چند ماہرین کا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہنا تھا کہ یہ ہتھیار بے آواز ہے، ’’کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ حملہ کہاں سے کیا جا رہا ہے اور یہ حملہ ایک حادثے کے طور پر دکھائی دے گا۔‘‘

بتایا گیا ہے کہ اب ان رائفلوں کی تیاری بڑے پیمانے پر شروع کر دی جائے گی۔ یہ لیزر رائفلیں پولیس کے خصوصی دستوں اور انسداد دہشت گردی فورسز کو فراہم کی جائیں گی۔  اسی طرح خفیہ فوجی آپریشنز کے ذریعے فوجی ہوائی اڈوں اور تیل کے ذخیروں کو بھی آگ لگائی جا سکتی ہے۔

دنیا کے اس جدید تحقیقی مراکز میں ایک عرصے سے لیزر ہتھیاروں کی تیاری جاری ہے لیکن ماہرین اس حوالے سے شک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں کہ اتنے چھوٹی سطح کی لیزر بندوقیں تیار کی جا سکتی ہیں کیوں کہ لیزر ہتھیاروں کو بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

سن دو ہزار سترہ میں ایک امریکی بحری بیڑے پر ایک بڑی لیزر کینن نصب کی گئی تھی۔