1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

چینی سرمایہ کاروں کو ٹیکس چھوٹ

بینش جاوید
24 اپریل 2017

پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبے سے منسلک چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی حکومت نے ٹیکس میں چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان کو اس طرح ٹیکس وصولی میں لگ بھگ 150 ارب روپے کا نقصان ہو گا۔

https://p.dw.com/p/2bpHO
Pakistan | China und Pakistan starten ihre Handelsroute
تجزیہ کاروں کی رائے میں حکومت چینی سرمایہ کاروں کو ٹیکس کے حوالے سے کافی مراعات دے رہی ہےتصویر: picture-alliance/AA

حکومت پاکستان کی رائے میں چینی سرمایہ کاروں کو ٹیکس چھوٹ دینے کے باوجود پاکستان کے مقامی صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ گزشتہ ہفتے پاکستان کی قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے جواب میں وزیر خزانہ نے چینی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں نرمی اور مکمل طور پر ٹیکس چھوٹ کے بارے میں تفصیلات بتائی تھیں۔

تجزیہ کاروں کی رائے میں حکومت چینی سرمایہ کاروں کو ٹیکس کے حوالے سے کافی مراعات دے رہی ہے۔ ڈان اخبار کے صحافی خلیق کیانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ گزشتہ دس سالوں سے پاکستانی حکومتوں کی پالیسی رہی ہے کہ امتیازی ٹیکس کو ختم کیا جائے عالمی بینک کے ساتھ بھی پاکستان کا یہی معاہدہ ہے۔ یعنی کے حکومت تمام سرمایہ کاروں کو برابری کے طور پر دیکھے۔‘‘ خلیق کیانی کہتے ہیں کہ مستقبل میں ہوسکتا ہے کہ سی پیک منصوبے سے فائدہ ہو لیکن  فی الوقت پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے۔ خلیق کیانی کہتے ہیں کہ اس سال ٹیکس وصولی کے ہدف  کے مقابلے میں پاکستان کو  170 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔ خلیق کے مطابق سی پیک معاہدے کے تحت پاکستان چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ ٹیکس کی بابت ترجیحی سلوک کررہا ہے۔

Karte Map China Pakistan Economic Corridor
تجزیہ کاروں کی رائے میں حکومت چینی سرمایہ کاروں کو ٹیکس کے حوالے سے کافی مراعات دے رہی ہے

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں امتیازی سلوک کے خلاف ہوں اگر چینی سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچایا جائے اور اپنے ملک  اور چین کے علاوہ دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی جائے تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کھلا مقابلہ ہونا چاہیے۔‘‘  ڈاکٹر اشفاق کہتے ہیں کہ ٹیکس کی کم وصولی سے معاشی طور پر تو پاکستان کو نقصان پہنچے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم مقامی انڈسٹریز کی بھی حوصلہ شکنی کریں گے۔ انہوں نے کہا،’’چینی کمپنیاں دنیا بھر میں ٹیکس دیتی ہیں پھر ہم کیوں انہیں اتنا زیادہ فائدہ اور گنجائش دے رہے ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کار عمومی طور پر ٹیکس دیتے ہیں اور ہمیں منافع ملتا ہے لیکن اگر ہم کسی ایک کو برتری دیں گے تو غیر ملکی سرمایہ کار بھی پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہیں گے۔‘‘

گوادر پورٹ ’ترقی کا زینہ‘

پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبے پر گہری نظر رکھنے والی صحافی سارہ حسن کہتی ہیں اگر سرمایہ کاری کسی ایسی انڈسٹری میں ہو رہی ہے جہاں کچھ بنایا جا رہا ہے یا جس کی وجہ سے پاکستانی لوگوں کو نوکریاں مل رہی ہیں تو ٹیکس میں چھوٹ دینا سمجھ آتی ہے لیکن اگر ٹریڈنگ اور سروسزکے شعبے میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے تو ایسے میں ٹیکس کی چھوٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سارہ کہتی ہیں، ‘‘ ابھی تک میں نے کوئی ایسی خبر نہیں سنی جس کے مطابق کوئی چینی کمپنی انفارمیشن ٹیکنالوجی  میں سرمایہ کاری کر رہی ہو، سیمنٹ یا کسی اور شعبے میں اپنا پیداواری پلانٹ لگا رہی ہو۔‘‘ سارہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا چینی کمپنیاں زیادہ تر اکنامک زونز بنا رہی ہیں جس میں بڑے بڑے ویئر ہاؤسز بنائے جائیں گے تا کہ یہاں سےوہ اپنی مصنوعات برآمد کر سکیں۔ سارہ نے کہا،’’ اگر چینی سرمایہ کار  یہاں بڑے پیمانے پر صنعتیں قائم کریں تو ٹیکس میں چھوٹ جائز ہے کیوں کہ اس طرح حکومت اپنی برآمدات بڑھا سکتی ہے۔ اس کی ایک مثال ٹیکسٹائل انڈسٹری ہے۔ پاکستان نے ٹیکسٹائل کمپنیوں کو ٹیکس چھوٹ دی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیکسٹائل کی مصنوعات برے پیمانے پر بر آمد ہوتی ہیں۔‘‘      

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں