1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈا ونچی کا شاہکار کروڑوں ڈالر میں خریدنے والا سعودی ولی عہد

عابد حسین
8 دسمبر 2017

ایک امریکی جریدے کے مطابق ڈا ونچی کی پینٹنگ کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خریدا تھا۔ اس نیلامی میں انہوں نے ایک قابلٍ بھروسہ شخص کے ذریعے شرکت کی تھی۔

https://p.dw.com/p/2p2cf
Bildergalerie Jahresrückblick 2017 International
تصویر: Getty Images/AFP/T. Akmen

امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق گزشتہ ماہ پندرہویں صدی کے تاریخ ساز اطالوی مصور لیونارڈو ڈا ونچی کے مصورانہ شاہکار کو سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خریدا تھا۔ اس شاہکار پینٹنگ کی نیلامی 450 ملین ڈالر میں ہوئی تھی، جو ایک ریکارڈ ہے۔

اسلام کا چہرہ مسخ نہیں ہونے دیں گے، سعودی ولی عہد

ایران سعودی عرب کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہوا، سعودی ولی عہد

مستقبل کے سعودی بادشاہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے

سعودی خواتین اسٹیڈیم میں داخل ہو سکیں گی

ابتدا میں خریداروں کے حوالے سے جو شکوک ظاہر کیے گئے تھے، اُن میں امریکی انفارمیشن ٹیکنالوجی ادارے مائیکروسافٹ کے مالک بل گیٹس کو فوقیت حاصل تھی۔ لیکن اس رپورٹ نے سب شکوک کو غلط ثابت کر دیا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی حکومت میں شہزادہ محمد کے قریبی دوست احباب نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سعودی شہزادے نے ایک اور شخص کے توسط سے نیلامی میں شرکت کی تھی۔ اس شخص کے نام پر چھائی ہوئی دھند کی چادر وال اسٹریٹ جرنل نے ہٹا دی ہے۔

نیلامی میں سعودی ولی عہد کی نمائندگی شاہی خاندان کے ایک انتہائی غیرمعروف شہزادہ بادیر بن عبداللہ بن محمد کر رہے تھے۔ ان کا تعلق بھی آل سعود سے ہے۔ اسی بادیر نے پینٹنگ کو خریدنے کی حتمی بولی دی تھی۔

Saudi-Arabien König Salman und Kronprinz Mohammed bin Salman
سعودی شاہ سلمان اپنے بیٹے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ہمراہتصویر: Reuters/F. Al Nasser

اطالوی مصور لیونارڈو ڈا ونچی کی پینٹنگ کی نیلامی کو ریکارڈ ساز تصور کیا جاتا ہے۔ بدھ چھ دسمبر کو خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات میں قائم ہونے والے فرانسیسی میوزیم لُوور کی ابوظہبی شاخ میں اس کو آویزاں کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

ڈا ونچی کی پینٹنگ یسوع مسیح کی ہے اور اس کا نام انہوں نے ’سلواتر مُنڈی‘ یعنی دنیا کا نجات دہندہ تجویز کیا تھا۔ وال اسٹریٹ جرنل نے یہ معلومات امریکی خفیہ اداروں اور دوسرے نامعلوم ذرائع  سے حاصل کر کے جاری کی ہیں۔