1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ژُرگن ہابرماس: تاریخ، مؤثر حقیقت اور ایک ریپبلکن فلسفی

18 جون 2019

دور حاضر کے عظیم ترین فلسفیوں میں شمار ہونے والے جرمن دانشور ژُرگن ہابرماس نوے برس کے ہو گئے ہیں۔ ہابرماس کی زندگی کے نو عشرے مکمل ہونے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کے مارٹن مُونو کا لکھا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/3KdED
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Pantzartzi

ژُرگن ہابرماس اور وفاقی جمہوریہ جرمنی، یہ وہ تاریخ ہے، جو سیاسی فلسفے کے طور پر حقیقتاﹰ انتہائی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ ہابرماس کا وفاقی جمہوریہ جرمنی سے تعلق دونوں کے ایک دوسرے کے مسلسل قریب تر آتے جانے کا ایک طویل عمل ہے، جو اب تاریخ بن چکا ہے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں ہابرماس ایک مارکسسٹ سمجھے جاتے تھے۔ ان کی تصنیف 'عوام کی ہیئت کا تغیر‘ ایک ایسی بنیادی تنقیدی تحریر ہے، جو سرمائے اور طاقت کے ارتکاز کے بارے میں ہے۔

Jürgen Habermas Cambridge 07.06.2001
ژرگن ہابرماس جون سن دو ہزار ایک میں انہیں امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کی طرف سے دی جانے والی اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے ساتھتصویر: Getty Images

جرمنی میں وفاقی ریاست جب ابھی بہت نوعمر تھی، تو ہر کوئی اس ملک کے ‘اقتصادی معجزے‘ پر خوش تھا۔ تب کئی اہم عہدوں پر سابق نازی شخصیات بھی براجمان تھیں، مثال کے طور پر نازی دور میں نیورمبرگ کے نسل پرستانہ قوانین کو قلم بند کرنے والوں میں سے ایک ہانس گلوبکے وفاقی چانسلر کے دفتر میں ایک عہدے پر فائز تھے اور اس بارے میں بڑی خوشی سے مکمل خاموشی اختیار کی جاتی تھی۔

وفاقی جرمنی میں ماضی کے نازی دور کے بارے میں کس طرح سوچا جانا چاہیے، اس بات کو پہلی بار 1968ء کی تحریک  کی وجہ سے موضوع بنایا جا سکا۔ 1986ء میں ہابرماس نے 'مؤرخین کے تنازعے‘ کے دوران ایسی تحقیقی اور نصابی کوششوں کی بھرپور مخالفت کی، جن کا مقصد نازی دور میں یہودیوں کے قتل عام یا ہولوکاسٹ کی بہت منفرد حیثیت کو جھٹلانا تھا۔

اس دوران اہم ترین پہلو جرمن تاریخ کے حوالے سے جرم اور ذمے داری سے متعلق سوال ہی بنا تھا۔ تب ایک سال قبل 1985ء میں اس دور کے وفاقی جرمن صدر رشارڈ فان وائتسیکر نے بھی دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر اسی موضوع پر اظہار خیال کیا تھا۔

تب وفاقی جرمن صدر وائتسیکر نے اپنے خطاب میں آٹھ مئی کو 'رہائی کا دن‘ قرار دیا تھا: ''اس دن نے ہم سب کو نیشنلسٹ سوشلسٹوں (نازیوں) کے جبر کی حکمرانی کے انسانی تذلیل کا سبب بننے والے نظام سے رہائی دلائی تھی۔‘‘ یہ ایک ایسا موقف تھا، جس پر آج تو جرمنی میں تقریباﹰ اتفاق رائے پایا جاتا ہے لیکن تب یہی بیان جزوی طور پر شدید تنقید کی وجہ بھی بنا تھا۔ تب سوال یہ اٹھایا گیا تھا کہ کوئی وفاقی جرمن صدر، اور وہ بھی ایک قدامت پسند، جرمنی کے ہتک آمیز انداز میں ہتھیار پھینک دینے کے دن کو 'رہائی کا دن‘ کیسے قرار دے سکتا ہے؟ وہ بھی اس طرح کہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر جرمنی کا ہتھیار پھینک دینا ایک ایسا عمل تھا، جو شکست خوردہ جرمن ریاست کی دو حصوں میں تقسیم کے آغاز سے بھی جڑا ہوا تھا۔

وطن سے محبت کا لٹمس ٹیسٹ

تب ماضی کے بارے میں عوامی رویہ اپنے ہی ملک سے متعلق عوامی طرز عمل کو پرکھنے کا پیمانہ یا 'لٹمس ٹیسٹ‘ بھی سمجھا جاتا تھا: یعنی جو بھی جرمنی سے محبت کرتا ہے، اسے اپنے ہی ماضی کو بہت سخت گیر رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ماضی کو کسی عدالت میں نہیں لے جانا چاہیے۔ اگر کوئی ایسا کرتا، تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔

Kommentarbild Muno Martin
ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار مارٹن مُونو

مثال کے طور پر حب الوطنی کے جذبات کے اظہار کی ذہنی طور پر اجازت زیادہ سے زیادہ اس وقت دی جاتی تھی، جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم کوئی میچ کھیل رہی ہوتی تھی۔ یہ وہی رویہ تھا، جس کا ایک مرتبہ تقریباﹰ خلاصہ بیان کرتے ہوئے وائتسیکر کے ایک پیش رو وفاقی جرمن صدر گُسٹاف ہائنےمان نے کہا تھا، ''چھوڑیں، میں ریاستوں سے محبت نہیں کرتا۔ مجھے اپنی بیوی سے محبت ہے۔‘‘

جرمنوں کو اس بارے میں ایک واضح راستہ ژُرگن ہابرماس نے اس وقت دکھایا، جب انہوں نے اپنا 'آئینی حب الوطنی‘ کا تصور پیش کیا۔ یعنی حب الوطنی کی اساس نسل اور خطے کی بنیاد پر قائم کسی ملک (نازی دور کی اصطلاحات میں اس کے لیے خون اور زمین کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے) کو نہیں بنایا جانا چاہیے بلکہ جمہوریت اور آزادی اظہار رائے جیسی مشترکہ سیاسی اقدار کو۔ لیکن ایسی آئینی حب الوطنی صرف وہیں ممکن ہو سکتی ہے، جہاں سیاسی تشکیل رائے کے لیے آزادانہ بحث مباحثے کا ماحول بھی ہو، جہاں اختلافات اور مباحث تنازعات اور اختلاف رائے پر تبادلہ خیال کی ایک باقاعدہ ثقافت کو جنم دے سکیں۔ لیکن ساتھ ہی اسی پہلو کا کسی جمہوری ریاست کی آئینی بنیاد کے طور پر احترام بھی کیا جائے۔ یہ وہی سوچ ہے، جس کی ہابرماس نے ہمیشہ وکالت کی تھی اور جو اب وفاقی جمہوریہ جرمنی کے سیاسی نظام میں مسلمہ ہے۔

دو اہم باتیں

ژُرگن ہابرماس کی نوے ویں سالگرہ کے موقع پر دو باتیں شعوری طور پر ذہن میں رکھی جانا چاہییں: پہلی یہ کہ اس فلسفی اور ماہر عمرانیات نے وفاقی جمہوریہ جرمنی کی تاریخ اور جرمنوں کے لیے کسی 'وفاقی جمہوری‘ ریاست کے فہم کے تعین میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ دوسری یہ کہ انفرادی اور اجتماعی آزادیوں کے ستونوں پر کھڑا کیا گیا موجودہ جرمن جمہوریہ کا اساسی نظم و نسق ہمیشہ کے لیے دی جانے والی کوئی ضمانت نہیں ہے بلکہ اس کا تو ہر روز دفاع کیا جانا چاہیے۔

م م / ک م / مارٹن مُونو