1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کئی جرمن مساجد میں انتہاپسندی فروغ پا رہی ہے، انٹیلیجنس چیف

مقبول ملک10 اپریل 2016

جرمنی میں داخلی سلامتی کے ذمے دار خفیہ ادارے کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں زیادہ تر عربی زبان بولنے والے مسلمانوں کی کئی مساجد میں انتہا پسندی فروغ پا رہی ہے اور وہاں بنیاد پرستانہ رجحانات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ISpo
Deutschland Razzia gegen Islamisten in Berlin
جرمنی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کئی مسلم مذہبی اور ثقافتی مراکز پر چھاپے مار کر متعدد مبینہ انتہا پسندوں کو گرفتار کر چکے ہیںتصویر: Reuters/H. Hanschke

جرمن دارالحکومت برلن سے اتوار دس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ہنس گیورگ ماسین Hans-Georg Maaßen نے اپنے آج شائع ہونے والے ایک اخباری انٹرویو میں کہی۔ جرمنی میں، جو یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا رکن ملک بھی ہے، داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کا کام ’تحفظ آئین کے وفاقی دفتر‘ یا BfV کے سپرد ہے۔

اس وفاقی دفتر یا داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ماسین نے ہفت روزہ جریدے ’وَیلٹ ام زونٹاگ‘ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’ہم نے دیکھا ہے کہ عربی زبان بولنے والے مسلمانوں کی ایسی مسجدوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جہاں جزوی طور پر بنیاد پرستانہ سوچ پائی جاتی ہے۔‘‘

ہنس گیورگ ماسین کے مطابق، ’’ان میں سے کئی مسلم عبادت گاہیں ایسی ہیں جن کے انتظامی اداروں یا ان کی عہدیدار شخصیات میں شدت پسندانہ سوچ پائی جاتی ہے۔ اسی لیے تقریباﹰ سبھی واقعات میں سلفی مسلمانوں کی ایسی مساجد تحفظ آئین کے ادارے کے اہلکاروں کی نظروں میں ہیں۔‘‘

بی ایف وی کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ ایسی مساجد میں کئی ایسی مسلم عبادت گاہیں بھی شامل ہیں، جن کے لیے نجی سطح پر مالی عطیات سعودی عرب سے بھیجے گئے تھے۔

اپنے اس انٹرویو میں ہنس گیورگ ماسین نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ جرمنی میں نئی مسجدوں کے قیام کی بھی ضرورت ہے، خاص طور پر جرمن آئین اور قوانین کا احترام کرنے والے ان نوجوان مسلم مہاجرین کے لیے جن میں اس مقصد کے تحت مزید مساجد کی ضرورت کو بری طرح محسوس کیا جا رہا ہے کہ انہیں اپنے ارد گرد کے ماحول میں مذہبی فضا دستیاب ہو سکے۔

Deutschland Lange Nacht der Religionen in Berlin
برلن میں ترک مسلمانوں کی ایک مسجدتصویر: DW/K. Brady

ہنس گیورگ ماسین نے واضح طور پر کہا، ’’مسلمانوں کے لیے مذہبی احکامات پر آزادی سے عمل کر سکنے کے بنیادی حق کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ متعلقہ علاقے میں کوئی نہ کوئی مسجد بھی موجود ہو۔‘‘ داخلی سلامتی کے نگران جرمن انٹیلیجنس ادارے کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ وہ جرمنی میں کسی نئی مسجد کی تعمیر کے خلاف احتجاج کو درست نہیں سمجھتے، ’’لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لوگوں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔‘‘

ماسین نے جرمنی میں سیاسی اور سماجی شعبے کی نمائندہ شخصیات سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ ملک میں ’مسلمانوں کی مسجدوں کے ایک فعال اور اعتدال پسندانہ منظر نامے‘ کے حصول کو یقینی بنائیں تاکہ عام جرمن باشندوں میں اس حوالے سے پائی جانے والی تشویش کی کوئی وجہ ہی باقی نہ رہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں