1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل میں احتجاجی مظاہرے: پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا اعلان

24 نومبر 2010

افغانستان میں گزشتہ ستمبرمیں ہونے والے متنازعہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج دوماہ بعد آج بُدھ کومنظرعام پر آئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کی نشاندہی کے تحت ڈالے گئے ووٹوں کی ایک چوتھائی کو رد کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/QGoY
افغان الیکشن کمیشن کے چیئر مین فضل احمد مناویتصویر: AP

الیکشن میں کامیاب قرار دئے جانے والے 24 نامزد سیاستدانوں کونا اہل قرار دیا گیا ہے۔ 18 ستمبر کے پارلیمانی انتخابات کے دوران بے ضابطگیوں اور فراڈ پر آج 100 سے زائد نامزد افراد نے کابل کی سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرے کئے۔ ان میں سے ایک نجیب اللہ مجاہد بھی ہیں، جنہیں انتخابات کے ابتدائی نتائج کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ وہ منتخب ہونے میں نا کام رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ’ ہمیں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کہ افغان قوم کے ووٹ چرا لئے گئے ہیں۔ ہم اس پر سخت احتجاج کرتے ہیں اور اسی لئے یہاں اکٹھا ہوئے ہیں‘۔

ستمبر کے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کا ماننا ہے کہ انہیں الیکشن حکام کی طرف سے کامیاب ہونے نہیں دیا گیا۔ 18 ستمبر کے پارلیمانی انتخابات 2001ء میں افغانستان پرامریکی حملے کے بعد سے ملک میں ہونے والے دوسرے انتخابات تھے۔ ان میں 249 نشستوں کے لئے 2500 امیدواروں کے مابین مقابلہ تھا۔

NATO Gipfel Portugal Lissabon November 2010
لزبن منعقدہ حالیہ نیٹو سربراہ اجلاس میں باراک اوباما افغانستان اسٹریٹیجی پر بات چیت کرتے ہوئےتصویر: AP

یہ الیکشن پارلیمان کے ایوان زیریں، جسے افغانستان میں وولیسی جرگہ بھی کہتے ہیں، کے لئے ہوا تھا اور اس بار اس کے لئے 68 نشستیں برائے خواتین مختص کر دی گئی تھیں۔ اس سال اٹھارہ ستمبر کو ہونے والے ان پارلیمانی انتخابات میں کُل 5.6 ملین ووٹ ڈالے گئے تھے تاہم الیکشن کمیشن نے ان میں سے 1.3 ووٹوں کو ناقص قرار دے دیا ہے۔ ساتھ ہی 19 امیدواروں کو نا اہل قرار دے دیا گیا ہے ، ان میں سے ایک صدر حامد کرزئی کے رشتے کے بھائی ہیں۔

افغانستان کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلیوں کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات افغان صدراوران کی حکومت کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ان حالیہ الیکشنز کے نتائج دراصل وہ کسوٹی ہو سکتے ہیں، جس پر باراک اوباما افغانستان میں امریکہ کی جنگ میں اپنی حکمت عملی کو پرکھیں گے۔ اس اعتبار سے انتخابات کے نتائج کابل حکومت کے لئے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکی اور نیٹو اہلکار افغانستان میں اپنی طویل المیعاد ذمہ داریوں کا ازسرنو جائزہ لے رہے ہیں۔

NATO Gipfel Portugal Lissabon November 2010
افغان صدر پر دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہےتصویر: AP

18 ستمبر کے انتخابات کے بعد افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن نے وعدہ کیا تھا کہ الیکشن کے نتائج کا اعلان دس ہفتوں کے اندر کر دیا جائے گا۔ تاہم الیکشن کمیشن کے چیئرمین فضل احمد مناوی نے یہ کہا کہ کابل سے جنوب مغرب کی طرف واقع شورش زدہ صوبے غزنی میں ووٹوں کی گنتی اور حتمی نتائج سامنے آنا ہنوز باقی ہے۔

دریں اثناء افغانستان کے الیکشن کمیشن کی خاتون ترجمان مرزیہ صدیقی سلیم نے بتایا کہ غزنی کی 11 مقررہ نشستوں کے بغیر 249 سیٹس پر مشتمل ایوان زیریں یا وولیسی جرگہ کی 238 نشستوں کا فیصلہ کر دیا گیا۔ مرزیہ صدیقی کے بقول ممکنہ طور پر ایک ہفتے کے اندراندر یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ نئی پارلیمان کی تشکیل کب عمل میں لائی جائے گی۔ تاہم الیکشن کمیشن کے چیئرمین فضل احمد مناوی نے انتخابات میں فراڈ اور بے ضابطگیوں پر ہونے والے احتجاج کے باوجود کہا ہے کہ ان کے ملک میں دوبارہ الیکشن نہیں ہوں گے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں