1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کثیر النسلی حکومت: عمران خان کی طالبان سے مذاکرات کی ابتدا

18 ستمبر 2021

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغان طالبان کے ساتھ ایک کثیرالنسلی حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/40UfL
تصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

عمران خان کا یہ بیان شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن یا ایس سی او  کے سربراہان مملکت کے بیسویں اجلاس کے اختتام پر ایک ٹویٹ میں دیا گیا ہے۔ دوشبنے میں جاری اس سالانہ اجلاس کا موضوع افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے بات چیت تھا۔

عمران خان کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا،''دوشنبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں خصوصاً تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے طویل بات چیت کے بعد میں نے ایک شمولیتی حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔''

 عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ چالیس برس کی لڑائی کے بعد ان دھڑوں کی اقتدار میں شمولیت ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہو گی جو محض افغانستان ہی نہیں بلکہ خطے کے بھی مفاد میں ہے۔

جمعے کو اس اجلاس میں دیگر ممالک کے سربراہان کی جانب سے افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا جس میں افغانستان کے تمام دھڑوں کی نمائندگی ہو۔ روسی صدر نے ویڈیو لنک کے ذریعے دیے گئے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی قائم کردہ عبوری حکومت افغان عوام کی نمائندگی نہیں کرتی۔ چینی صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ  افغان عوام کے ایک نمائندہ سیاسی فریم ورک کے قیام کے لیے افغانستان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام کو دنیا بھر میں مایوسی کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا۔ اس عبوری کابینہ میں خواتین اور ملک کی دیگر نسلی اقوام کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے اس بات کو دہرا رہا ہے کہ یہ پاکستان اور خطے کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں ایک کثیر النسلی حکومت کا قیام ہو تاکہ مزید جنگ اور بدامنی سے بچا جا سکے۔

طالبان کی اکثریت پشتون نسل پر مشتمل ہے جو کہ ملک کی نصف آباد سے کم ہیں۔ 

اب جب کہ  پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی نمائندہ حکومت کے لیے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے، تو   یہ اعلان اس تاثر کو بھی تقویت دیتا ہے کہ پاکستان طالبان پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔