1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: اضافی فوجی دستوں کی آمد اور خوف و ہراس کا ماحول

صلاح الدین زین نئی دہلی
7 جون 2021

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دسیوں ہزار مزید فوجی تعینات کر دیے گئے ہیں اور اس کی وجہ سے طرح طرح کی قیاس آرائیوں اور اندیشیوں کا بازار  پھر گرم ہے۔

https://p.dw.com/p/3uWPq
Indien Kaschmir Soldaten in Srinagar
تصویر: picture-alliance/AA/F. Khan

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پہلے ہی سے ہر جانب فوجی دستوں کا زبردست پہرا ہے اور ایسی صورت حال میں ہزاروں اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے وادی کشمیر میں ایک بار پھر سے زبردست خوف و ہراس کا ماحول ہے اور عوام میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں گرم ہیں۔  

 بھارتی حکومت گزشتہ چند روز کے دوران دسیوں ہزار مزید نیم فوجی دستوں کو وادی کشمیر بھیج چکی ہے جو بیشتر شمالی کشمیر میں تعینات کیے گئے تھے۔  فوج کی اس تیز نقل و حرکت سے پورے خطے میں اضطرابی کیفیت عیاں ہے اور مقامی رہنما کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ کشمیر میں ایک بار پھر سے کچھ بڑا ہونے والا ہے۔

حکومت کا موقف کیا ہے؟

کشمیر میں حکام نے فوجی نقل و حرکت کے حوالے سے بعض بیانات کے ذریعے لوگوں کی تشویش یہ کہہ کر دور کرنے کی کوشش ہے کہ یہ فوجی اسمبلی انتخابات کروانے کے بعد واپس کشمیر آئے ہیں جو پہلے یہیں تعینات

Indien Kashmir Unruhen Soldaten
تصویر: Reuters

تھے۔ کشمیر میں انسپکٹر جنرل آف پولیس  وجئے کمار کا کہنا ہے، "واپسی کے بعد ان فوجیوں کو دوبارہ ان کی دیوٹی میں شامل کیا جا رہا ہے، یہ کوئی نئی تعیناتی نہیں ہے۔"

لیکن مقامی رہنما کہتے ہیں کہ فوج کی اتنی زیادہ نقل و حرکت سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ کشمیر میں پھر سے کچھ بڑا ہونے والا ہے اور ان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اس کے لیے شاید پھر سے کشمیری رہنماؤں کا حراست میں لیا جائے گا۔

نیشنل کانفرنس کے ترجمان اور ریاستی وزیر اعلی کے سابق مشیر تنویر صادق اس حوالے سے اپنی ایک ٹویٹ میں کہتے ہیں، "بہت تیزی سے طرح طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں، تو کیا ہمیں دوبارہ ایم ایل ہاسٹل جانے کے لیے تیار رہنا چاہیے؟"  واضح رہے کہ سرینگر کا ایم ایل ہاسٹل سیاسی قیدیوں کی نظر بندی کے لیے معروف ہے۔

Grenzkonflikt China Indien
تصویر: Muzamil Mattoo/Zuma/picture alliance

قیاس آرائیاں کیا ہیں؟ 

بھارتی حکومت نے 2019 میں جب کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370 کا خاتمہ کیا تھا تو اس اقدام سے پہلے بھی اضافی فوج تعینات کی گئي تھی اور اس وقت بھی مقامی لوگوں میں مختلف طرح کے اندیشوں اور وسوسوں کا بول بالا تھا۔ مقامی صحافیوں کے مطابق کشمیر میں گزشتہ دو روز سے ویسی ہی کیفیت ہے اور لوگوں میں فوجی نقل و حرکت سے زبردست بے چینی پائی جاتی ہے۔

صحافی ظہور حسین کہتے ہیں، "لوگ میں اضطرابی کیفیت ہے خاص طور پر وادی کشمیر میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دفعہ 370 کے بعد ان کے پاس کھونے کو بچا بھی کیا ہے، اس لیے پہلے جیسا خوف نہیں ہے۔" 

Indien Kämpfe in Kaschmir
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan

کشمیر میں ایک افواہ یہ ہے کہ مودی حکومت ایک بار پھر سے کشمیر کو تقسیم کرنے جا رہی ہے اور اس کے تحت جموں خطے کو پھر سے ریاست کا درجہ دے دیا جائے گا جبکہ وادی کشمیر مرکز کے زیر انتظام برقرار رہے گا۔

دوسری افواہ یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کو جموں میں ضم کر کے ایک نئی ریاست جموں قائم کی جائے گی اور شمالی کشمیر کو لداخ میں ضم کر کے ریاست لداخ قائم کی جائے اور کشمیر کو ختم کر دیا جائے گا۔

ایک افواہ یہ ہے کہ مودی حکومت کشمیری پنڈتوں کے لیے ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقے کا اعلان کرنے والی ہے تاکہ وہاں کشمیری پنڈتوں کو  پھر سے بسایا جا سکے۔ کشمیری پنڈتوں کی ایک تنظیم  'پنون کشمیر" کا مطالبہ رہا ہے کہ وہ کشمیر واپس آنا چاہتے ہیں تاہم انہیں الگ سے بسایا جائے اور کشمیر کو دو علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

نہ ہم یہاں کی رہیں نہ وہاں کی، کشمیر میں پاکستانی دلہنیں

ظہور حسین کے مطابق یہ سب افواہیں ہیں اور اسی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول بھی ہے۔  تاہم بعض قانونی ماہرین کے مطابق حکومت کے لیے اس وقت یہ کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ پارلیمان کا اجلاس جاری نہیں ہے۔

کشمیر کے سرکردہ وکیل اور ماہر قانون ریاض خاور کے مطابق سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بہت تیزی سے گردش کر رہی ہیں کہ ریاست کو پھر سے تقسیم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ تاہم ان کے مطابق، "ایک افواہ یہ بھی ہے کہ کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس کرنے کی تیاری ہو رہی لیکن ایسا کرنے کے لیے فوج کیون تعینات کی جائے گی۔"

ان کا کہنا تھا، "ریاست کو جس طرح سے تقسیم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں وہ پارلیمانی اجلاس کے بغیر بہت مشکل ہے، کیونکہ آرڈینینس تو ایمرجنسی اور مجبوری میں لایا جاتا ہے اور چونکہ انہیں اس کے لیے بہت سے ترامیم کرنی ہوں گی تبھی یہ ممکن ہے تو پارلیمانی اجلاس کے بغیر یہ کیسے کیا جاتا ہے۔ اس لیے میرے خیال سے یہ بات بعید از حقیقت ہے۔"

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ

ریاض خاور کے مطابق یہ تاثر بھی غلط ہے کہ جنوبی کشمیر کو جموں میں ضم کیا جائے گا، کیونکہ اس سے تو جموں میں مسلمانوں کو اکثریت ہو جائے گی جو بی جے پی کبھی نہیں چاہے گی۔ " اس وقت پاکستان سے بھی لڑائي کے بھی کوئی آثار نہیں ہیں تو پھر ایسا کیوں کیا جا رہا ہے، یہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ کووڈ کی موجودہ صورت حال میں یہ ایسا کیا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔"

کشمیر کی صورت حال

بھارت نے پانچ اگست سن 2019 کو کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات ختم کرتے ہوئے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں  میں تقسیم کر دیا تھا۔ ایک جموں کشمیر اور دوسرا لدّاخ کا علاقہ ہے۔ بھارت نے ایسا کرنے کے لیے کشمیر کے سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنان  کو گرفتار کیا تھا جس میں سے اب بھی ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

ریاست میں اب بھی سکیورٹی کا زبردست پہرا ہے اور تمام طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے۔

کارگل وار کی کہانی، دراس کے مقامی باشندوں کی زبانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں