1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر پر ٹرمپ کا بیان، نریندر مودی کے لیے وبال جان

23 جولائی 2019

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کشمیر کے حوالے سے بیان کے فورا بعد ہی بھارتی سوشل میڈیا پر وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف بیانات آنا شروع ہو گئے تھے۔ اب بھارتی اپوزیشن نے بھی ان سے وضاحت طلب کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/3MaXp
USA Trump und Modi im Weißen Haus
تصویر: Reuters/K. Lamarque

گزشتہ شب امریکی صدر اور پاکستانی وزیراعظم کی پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے کشمیر میں امن کے حوالے سے سوال کیا۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ دو قابل ملک اس مسئلے کو حل نہیں کر پا رہے۔ ٹرمپ نے کہا، ’’میں دو ہفتے قبل بھارتی وزیراعظم کے ساتھ تھا۔ ہم نے اس موضوع پر گفتگو کی اور انہوں نے مجھے کہا کہ کیا آپ ثالث کا کردار ادا کریں گے؟ تو میں نے پوچھا کہاں؟ انہوں نے کہا کشمیر میں کیوں کہ یہ مسئلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔‘‘

عمران خان نے ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اس مسئلے کو حل کر پائے تو آپ کو ایک ارب سے زیادہ لوگ دعائیں دیں گے۔ یہ بیانات سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر ٹرمپ کی کشمیر کے حوالے سے بات چیت کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔ بھارتی صحافیوں نے سوشل میڈیا پر بھارتی وزارت خارجہ کو ٹیگ کر کے بھارتی پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ دباؤ اس قدر زیادہ تھا کہ کچھ ہی دیر میں بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے ایک ٹویٹ میں امریکی صدر کے اس دعوے کی تردید کر دی گئی۔

آج غصے میں آئی ہوئی بھارتی اپوزیشن نے بھی نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پارلیمان میں آ کر امریکی صدر کے اس دعوے کی وضاحت پیش کریں۔ اپوزیشن کے اس مطالبے کے بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا ایوان بالا میں کہنا تھا کہ وزیراعطم مودی کی جانب سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی۔

دریں اثناء بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اراکین نے خاص طور پر نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کی تردید یا تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان جاری کریں۔ اپوزیشن لیڈر انند شرما اور ڈی راجا کا کہنا تھا کہ یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے۔ یاد رہے کہ نریندر مودی حکومت کا اب تک کا موقف یہ رہا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں وہ کسی تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں کریں گے۔ بھارتی وزیر خارجہ کا اب بھی بیان جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ''پاکستان کے ساتھ مذاکرات صرف سرحد پار سے دہشت گردی ختم کرنے کی صورت میں ہی ہوں گے۔‘‘

ا ا / ع ا (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)