1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے حکام کے خفیہ مذاکرات

15 اپریل 2021

مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت اور پاکستان کے اعلی انٹیلیجنس حکام کے درمیان جنوری میں دوبئی میں خفیہ مذاکرات ہوئے تھے۔

https://p.dw.com/p/3s2jC
Symbolbild | Indien Pakistan Freundschaft
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/H. Tyagi

خبر رساں ایجنسی روئٹرزکے مطابق بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات کا قریبی علم رکھنے والے دہلی کے ایک ذرائع نے اسے بتایا ہے کہ جنوری میں دوبئی میں دونوں ملکوں کی ایک خفیہ میٹنگ ہوئی جس میں دونوں ملکوں کے اعلی انٹیلیجنس حکام شریک تھے۔

جوہری طاقت رکھنے والے دنوں ملکوں کے درمیان سن 2019 سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں جب کشمیر میں بھارتی فوجی قافلے پر ہونے والے حملے میں چالیس بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ بھارت نے ان حملوں کے لیے پاکستان سے سرگرم دہشت گردوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا اور جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنے جنگی طیاروں کے ذریعہ پاکستانی علاقوں کونشانہ بنایا تھا۔

سن 2019 میں ہی پانچ اگست کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی تھی جس کا مقصد بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر گرفت کو مضبوط کرنا ہے۔ اس اقدام کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح گھٹا دی اور تجارتی تعلقات معطل کر دیے۔

بیک چینل ڈپلومیسی

دونوں ملکوں کی حکومتوں نے تاہم گذشتہ کئی ماہ کے دوران بیک چینل ڈپلومیسی کا آغاز کر دیا ہے اور تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان نے ایک بھارتی مسافر بردار طیارے کو اپنے یہاں ایمرجنسی لینڈنگ کی اجازت دی تھی جبکہ بھارت نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو سری لنکا جانے کے لیے بھارتی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دی تھی۔ اس کے علاوہ ایک پاکستانی نیزہ باز ٹیم نے گزشتہ ماہ بھارت کا دورہ کیا تھا۔

روئٹرز کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی کے متعلق علم رکھنے والے دو ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے تعاون سے جنوری میں دبئی میں ہونے والی بات چیت میں بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالسس ونگ (را) اور پاکستان کے انٹر سروسز انٹلی جنس (آئی ایس آئی) کے اہلکارو ں نے حصہ لیا تھا۔

لیکن بھارتی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں روئٹرز کی جانب سے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اسی طرح پاکستانی فوج کی طر ف سے اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

لیکن پاکستانی دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی عہدیدار کسی تیسرے ملک میں پچھلے کئی ماہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا”اس حوالے سے اعلی عہدیداروں کے درمیان تھائی لینڈ، دوبئی اور لندن میں ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔"

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ

ماضی میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں

روئٹرز کے مطابق ماضی میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان ایسی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، بالخصوص بحرانی صورت حال کے دوران، تاہم عوامی طورپر ان ملاقاتوں کا کبھی اعتراف نہیں کیا گیا۔

ایسی ملاقات کی تصدیق کرنے والے دہلی کے ایک ذرائع کا کہنا تھا”اب بھی بہت کچھ غلط ہوسکتا ہے، ایسا کئی بار ہوا ہے، اس لیے کوئی عوامی طورپر اس کی بات نہیں کر رہا۔ ہم اس کا کوئی نام بھی نہیں دے سکتے۔ یہ امن مساعی بھی نہیں ہے۔ آپ اسے دوبارہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کہہ سکتے ہے۔"

دونوں ملکوں کے لیے باہمی تعلقات بحال کرنے کے وجوہات بھی ہیں۔ بھارت گزشتہ برس سے چین کے ساتھ سرحدی تنازعے میں الجھا ہوا ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ ایک نیا فوجی محاذ کھولنا نہیں چاہتا ہے۔

دوسری طرف چین کا حلیف پاکستان اقتصادی دشواریوں میں پھنسا ہوا ہے اور مالی مشکلات سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے بیل آوٹ پیکج پر منحصر ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا وہ کشمیر کی سرحد پر طویل مدت تک کشیدگی کو برداشت کرسکے گا جبکہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد وہ اپنی مغربی سرحد کو بھی مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔

روئٹرز کی سابق صحافی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے محاذ پر جنگ کے موضوع پر حال ہی میں کتاب لکھنے والی مائرہ میک ڈونلڈ کا کہنا ہے”پاکستان اور بھارت کے لیے مذاکرات کرنا بات چیت نا کرنے سے بہتر ہے اوریہ زیادہ بہتر ہے کہ یہ خفیہ طور پر کیا جائے اور اسے پبلسٹی سے دور رکھا جائے۔"

مائرہ میک ڈونلڈ کہتی ہیں ”میں اسے کشیدگی میں بنیادی کمی کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں سمجھتی کیونکہ دونوں ملک اس وقت مشکلات سے دو چار ہیں۔ پاکستان کو افغانستان سے امریکی انخلا کا سامنا کرنا ہو گا جبکہ بھارت کو چین کے ساتھ تنازعے کا سامنا ہے۔"

بیان بازی میں کمی

روئٹرز کے مطابق جنوری میں دبئی میٹنگ کے بعد ہی بھارت اور پاکستان نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس پر اب تک عمل جاری ہے۔

دونوں ملکوں نے اپنے اپنے زیر انتظام کشمیر میں رواں سال انتخابات کروانے کا بھی اعلان کیا ہے تاکہ دہائیوں سے خونریزی کا شکار اس علاقے کی صورت حال کو معمول پر لایا جا سکے۔

روئٹرز سے بات کرنے والے ذرائع کے مطابق دونوں ملکوں نے روایتی بیان بازی میں کمی لانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

اس کے تحت پاکستان اگست 2019 میں کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی پر کیے جانے والے اعتراض کو ختم کر دے گا جبکہ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے تشدد کا الزام پاکستان پر عائد کرنے سے باز رہے گا۔

یہ تفصیلات اس سے پہلے سامنے نہیں آئی ہیں۔ بھارت کشمیر میں شورش کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتا ہے لیکن پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

لداخ میں بھارتی فوج کی بھاری تعیناتی، لوگوں میں پریشانی

روئٹرز سے بات کرنے والے ایک ذرائع کا کہنا تھا''دونوں ملکوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ کشمیر میں اندر سے حملے ہو سکتے ہیں اور اس پر بات بھی ہوئی ہے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے اور ایسے کسی حملے کو ان کوششوں کی راہ میں حائل نہ ہونے دیا جائے۔"

خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات کرنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ گوکہ 74 سالہ پرانے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا ابھی تک کوئی منصوبہ سامنے نہیں آ سکا ہے لیکن دونوں ممالک تعلقات کو بحال کرنے کے لیے کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی رؤف حسن کا روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا 'پاکستان جیوا سٹریٹجک سے جیو اکنامک دور میں داخل ہو رہا ہے۔ اس کے لیے اندرونی طور پر اور اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن ایک کلیدی جز ہے۔"

ج ا/ ص ز  (روئٹرز)

’یہ علاقہ کبھی پاکستان کا حصہ تھا‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید