1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: ہند نواز جماعتوں کی پہلی میٹنگ کا زمینی اثرکیا ہوگا؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
24 اگست 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد پہلی بارہند نواز سیاسی جماعتوں نے آئینی حیثیت کی بحالی کے لیے جدوجہد کا عہد کیا ہے لیکن ماہرین کے مطابق کشمیری اس قدر نالاں ہیں کہ اس کا زمین پرکوئی نہیں پڑےگا۔

https://p.dw.com/p/3hPXX
Indien Minister für erneuerbare Energien Farooq Abdullah
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Khan

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں خصوصی آئینی اختیارت والی دفعہ 370 کے خاتمے کے ایک برس بعد پہلی بار کشمیر کی چھ بھارت نواز سیاسی جماعتیں بڑی مشکل سے ایک مشترکہ بیان جاری کر سکیں جس میں کہا گیا ہے کہ اب تمام پارٹیوں کی سیاسی سرگرمیوں کا اہم مقصد جموں و کشمیر کی اس حیثیت کو واپس لانا ہے جو چار اگست 2019 سے پہلے تھی۔ یعنی دفعہ 370 کی بحالی اور خطے کو پھر سے ریاست کا درجہ دلانے کی کوشش کی بات کہی گئی ہے۔

مودی کی حکومت نے  پانچ اگست 2019 کو کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370 کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا تھا۔ حکومت نے اس کے سا تھ ہی وہاں اضافی فوج تعینات کرتے ہوئے کرفیو جیسی بندشیں عائد کردی تھیں۔ تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کرتے ہوئے  بیشتر کشمیری رہنماؤں کر حراست میں لے لیا تھا جس میں سے کچھ کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم اب بھی بہت سے رہنما قید میں ہیں۔

بھارتی حکومت کے ان سخت اقدامات کے بعد جن چھ چماعتوں نے 22 اگست کو پہلی بار مشترکہ بیان جاری کیا اس میں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس، محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی، کانگریس، سجاد لون کی پیپلز کانفرنس، مارکسی کمیونسٹ پارٹی اور عوامی نیشنل کانفرنس شامل ہیں۔ ان کی طرف سے مشترکہ بیان میں کہا گیا، '' ہم دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی، جموں و کشمیر کے آئین اور ریاست کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنے کے لئے پرعزم ہیں اور ریاست کی کوئی بھی تقسیم ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ ہم متفقہ طور پر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہمارے بغیر ہمارے بارے میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا ہے۔''

کشمیر: دفعہ 370 کے خاتمے کی پہلی برسی

ایک طویل بیان میں جہاں بھارتی حکومت کے اقدامات پر شدید نکتہ چینی کی گئی وہیں کشمیری عوام کے لیے جد و جہد کرنے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ سبھی اس بات سے متفق ہیں کہ اس کے لیے اجتماعی ادارہ ایک موثر طریقہ کار ثابت ہوسکتا ہے۔ ''ہم لوگوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اب ہماری تمام سیاسی سرگرمیاں جموں و کشمیر کو چار اگست 2019  والی حیثیت کی طرف دوبارہ واپس لانے کے مقدس مقصد کے ماتحت ہوں گی۔''

تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما میٹنگ میں شرکت نہیں کر سکے تاہم بیان پر سبھی کے دستخط تھے۔ کشمیر میں گزشتہ ایک برس سے جس طرح کی بندشیں عائد تھیں اس پس منظر میں اس طرح کی میٹنگ اور بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ تمام سختیوں اور کوششوں کے باوجود حکومت ان رہنماؤں کو اپنے بس میں نہیں کر پائی تاہم ماہرین کے مطابق زمینی سطح پر اس کے کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہو رہے ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بھارت نواز سیاسی رہنماؤں کی بنیاد تقریبا ًختم ہوچکی ہے اور اس طرح کی بیان بازی ان کی مجبوری ہے تاکہ سرخیوں میں دوبارہ آسکیں۔ سینیئر صحافی الطاف حسین نے اس مشترکہ بیان سے متعلق ڈی ڈبلیو سے خاص بات چیت میں کہا کہ عمرعبداللہ اور فاروق عبداللہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ بات چیت ہی ایک واحد راستہ ہے، '' یہ ان کا غیر حقیقی رویہ ہے۔ کیا مودی ان سے دفعہ 370  کی واپسی کے لیے بات کریں گے؟ اگر ایسا ہوتا تو اسے ہٹایا کیوں جاتا۔ بھارتی نواز سیاسی رہنماؤں پر اگر کشمیریوں کو ذرا سا بھی کوئی اعتماد تھا، تو وہ بھی اب ختم ہوچکا ہے۔ اب یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ یہ رہنما بھارتی حکومت کے مددگار و ساتھی ہیں یا پھر خود کوبے بس محسوس کر رہے ہیں۔''

کشمیر: بشیر احمد خان کو کس نے مارا؟

الطاف حسین کے مطابق عام کشمیری شہری بھارتی نواز سیاست دانوں سے متنفر ہوچکے ہیں۔ یہ بات تو سمجھ سے باہر کہ آخر یہ سیاسی جماعتیں کس لیے یہ کر رہی ہیں۔ ''شاید یہ اپنی بقا کا کوئی راستہ تلاش کر رہی ہیں۔ ان جماعتوں کا ایمان و یقین تو بس اقتدار کا حصول ہے لیکن پہلی بار یہ ایک بڑی آزمائش میں پڑ گئے ہیں۔''

کشمیر میں بعض حلقے کہتے ہیں کہ دفعہ 370 کے خاتمے سے قبل فاروق عبداللہ سمیت کئی رہنماؤں نے کہا تھا کہ اگر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے ساتھ کچھ بھی کیا گیا تو وہ اس کی کھل کر مخالفت کریں گے پھر ایک دن قبل ہی انہوں نے مودی سے ملاقات کی تھی اور حیرت اس بات پر ہے کہ مودی سے ملاقات کے بعد بھی انہیں معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ صبح کیا کرنے جا رہے ہیں توایسے رہنماؤں پر کون اعتبار کرے گا۔

الطاف حسین کہتے ہیں کہ یہ رہنما کس لائق ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے، ''یا تو ان کو معلوم تھا اور مودی کے منصوبے کا حصہ تھے اور بتایا نہیں یا پھر پتہ ہی نہیں چلا، تو پھر یہ کس کام کے ہیں۔ اب وہی رہنما اس موضوع پر مودی سے کیا بات کریں گے؟''

سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ کشمیرمیں اب بھارت نواز سیاسی رہنماؤں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے وہ اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور اب اس کے لیے وہ کشمیر میں بی جے پی کے خلاف نعرہ دیں گے تاکہ اس کے نام پر وہ اپنا وجود برقرار رکھ سکیں۔

کشمیر میں جمہوریت کا نام و نشان تک نہیں، کشمیری رہنما

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں