1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کلبھوشن کو قونسلر رسائی: پاکستان کا مثبت قدم؟

عبدالستار، اسلام آباد
2 ستمبر 2019

پاکستان میں کئی حلقوں نے اس بات کا خیر مقدم کیا ہے کہ اسلام آباد نے کلبھوشن یادیو کو بھارتی حکومتی افسران سے ملنے کی اجازت دی ہے۔ سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری میں مدد ملے گی۔

https://p.dw.com/p/3OtiA
Pakistan Islamabad Kulbhushan Jadhav
تصویر: Reuters/F. Mahmood

دوسری جانب کچھ سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مودی کی حکومت ایک انتہا پسندانہ نظریے کی حامل ہے اور وہ کسی صورت بھی اس مثبت اقدام کا مثبت جواب نہیں دے گی۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ کچھ برسوں سے کشیدگی برقرار ہے، جس میں پلوامہ حملے کے بعد شدت آئی۔  نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی حیثیت بدلنے پر اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے سفارتی عملے کی تعداد کم کی ہوئی ہے اور تجارت بھی کسی حد تک متاثر ہوئی ہے۔ تاہم اسلام آباد کی طرف سے مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپنے ملک کے اہلکاروں تک رسائی کے فیصلے کو کئی حلقے اس تناؤ کی فضا کو کم کرنے میں معاون سمجھتے ہیں۔ معروف سیاست دان، نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے جہاز رانی و بندرگاہ میر حاصل بزنجو نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے خیال میں یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے اور ہم اس خیال کے حامی ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہونے چاہیں۔ دونوں ممالک کو اپنے سیاسی، سفارتی اور تجارتی روابط کو بھی بہتر بنانا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ اس فیصلے سے موجودہ کشیدگی کو کم کرنے میں کسی حد تک مدد ملے گی۔‘‘

تاہم حاصل بزنجو نے حکومت کی پالیسی پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا،''میرے خیال میں حکومت کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے۔ ایک طرف وہ بھارت کو گالیاں دیتے ہیں اور دوسری طرف مذاکرات کی بات بھی کرتے ہیں۔ تو گالیاں اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ ہمیں مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے۔‘‘

عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما فاورق طارق نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے دونوں اطراف برف پگھل سکتی ہے۔ اس موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہماری پارٹی اس فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ دونوں ممالک لائن آف کنڑول کو نارمل کریں۔ اپنے سفارتی عملے کی تعداد بڑھائیں، تجارت کھولیں اور عوامی روابط کو بھی فروغ دیں۔‘‘

تاہم کئی ماہرین اس اقدام سے بہت زیادہ امیدیں نہیں باندھ رہے۔ سابق پاکستانی سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کا خیال ہے کہ پاکستان جتنی بھی خیر سگالی دکھا دیے، بھارت سے خیر کی توقع نہیں ہے۔ اس موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بھارتی وزیرارعظم نے کشمیر میں ظلم کی انتہا کی ہوئی ہے۔ وہاں کئی دن سے کرفیو نافذ ہے۔ کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور بین الاقوامی برادری خاموش ہے۔ یہ صدر ٹرمپ اور بین الاقوامی برادری کا امتحان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس ظلم کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں یا صورت حال کو ایک ایسی طرف جانے دیتے ہیں جہاں پورا خطہ تباہی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔‘‘

شمشاد احمد نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان نے کلبھوشن کی بھارتی افسران سے ملاقات کسی دباؤ کے تحت کرائی ہے یا بین الاقوامی برادری کو خوش کرنے کے لیے کرائی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’پاکستان ایک مہذب ملک ہے اور اس نے دکھایا ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں ہر حال میں پوری کرتا ہے جب کہ بھارت رائے شماری سے لے کر انسانی حقوق کے احترام تک تمام اقدامات بین الاقوامی قوانین کے خلاف اٹھا رہا ہے۔‘‘

کشمیر: عمران خان کی ’مسلمانوں کی نسل کشی‘ کے خلاف تنبیہ

پاکستانی فوج مداخلت کرے، کشمیری عسکریت پسند رہنما کا مطالبہ

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جب بھی خطے میں کشیدگی بڑھتی ہے، بین الاقوامی طاقتیں اس کشیدگی کو کم کرانے کے لیے متحرک ہو جاتی ہیں۔ انیس سو پینسٹھ اور انیس سو اکہتر کی پاک بھارت جنگوں کو ختم کروانے میں روس اور امریکا نے کردار ادا کیا۔ کارگل کی جنگ کے دروان واشنگنٹن نے بہت متحرک کردار ادا کیا اور پلوامہ کے بعد بھی صدر ٹرمپ کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے دونوں ممالک پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔ پاکستان کے سابق سفیر برائے برطانیہ واجد شمس الحسن کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی دنیا اب بھی اس کشیدگی کو کم کرانے میں مدد کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد پاکستان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا تو پاکستان کو یہ کرنا ہی تھا۔ بین الاقوامی برادری اس صورت حال پر پریشان ہے اور امریکا و برطانیہ ہمیشہ ایسی صورت حال میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم نے بھارتی پائلٹ کو بھی امریکی دباؤ پر چھوڑا اور ابھی بھی ہم پر یہ دباؤ ہے کہ ہم بھارت سے کشمیر سمیت تمام معاملات دو طرفہ طور پر طے کریں۔‘‘

کشمیر میں لاوا پک رہا ہے، ملیحہ لودھی