1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کمسن ملازمین پر تشدد کا سبب، معاشرتی رویے یا ریاستی غفلت؟

صائمہ حیدر
13 جولائی 2017

ایک خاتون ایم پی اے کی صاحبزادی کے گھریلو ملازم پر مبینہ تشدد کے نتیجے میں ہلاکت کے بعد انسانی حقوق کے کارکنان کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ  پاکستان میں چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کے حوالے سے کیا قانون سازی کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2gT0Q
Title Kinderarbeit in Pakistan
طاہرہ عبداللہ کے مطابق چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کو ملکی قوانین میں خاطر خواہ جگہ نہیں دی گئیتصویر: DW/I. Jabeen

پاکستان ميں مقامی میڈیا کے مطابق لاہور کے اکبری منڈی نامی علاقے میں ایک خاتون رکن صوبائی اسمبلی شاہ جہاں کی بیٹی فوزيہ کی جانب سے اُن کے گھریلو ملازم اختر علی پر تشدد کا الزام ہے جس کے باعث اختر علی کی ہلاکت ہوئی۔ تاہم اُن کی صاحبزادی فوزیہ نے ضمانت قبل از گرفتاری لے رکھی ہے۔

فوزیہ کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر اختر علی کی بہن عطیہ نے درج کرائی ہے۔ پاکستان کے مقامی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اس مقدمے پر آج ہونے والی عدالتی کارروائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملزمہ فوزیہ کو قبل از گرفتاری ضمانت دے دی گئی ہے اور اب مقدمے کی آئندہ سماعت بیس جولائی کو ہو گی۔

دوسری جانب میڈیا ہی کی اطلاعات کے مطابق مبینہ طور پر قتل کيے جانے والے کمسن اختر علی کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق کی گئی  ہے کہ اُس پر تشدد ہوا تھا۔

پاکستان میں آئے دن گھریلو ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں بھی ایک بچی طیبہ پر ایک جج کی بیوی کے مبینہ تشدد کا واقعہ سامنے آیا جس پر پاکستانی سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن بھی لیا اور یہ مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے۔

 ایسے واقعات کسی معاشرے میں کیوں جنم لیتے ہیں؟ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سر گرم کارکن طاہرہ عبداللہ نے ڈوئچے ویلے سے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کا بد سلوکی اور تشدد کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے۔

5 Kinderarbeit in Pakistan
تصویر: DW/I. Jabeen

طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ بچوں اور بچیوں کے محنت اور مزدوری کرنے کے خلاف نہ صرف پاکستان میں قوانین موجود ہیں بلکہ پاکستان کے قیام سے پہلے برطانوی راج میں بھی ایسے قوانین موجود تھے۔ طاہرہ عبداللہ کے مطابق ، ’’سن 2013 سے سن 2016 تک چاروں صوبوں نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے قوانین کو زیادہ مضبوط کیا۔ لیکن دوسری جانب یہ امر قابل افسوس ہے کہ اس میں وہ بچے شامل نہیں جنہیں اُن کے ماں باپ دوسروں کے گھروں میں کام کے لیے بھیجتے ہیں ۔ یعنی چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کو ملکی قوانین میں خاطر خواہ جگہ نہیں دی گئی۔‘‘

طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ کم سن گھریلو ملازمین کے ساتھ بد سلوکی میں نہ صرف اُن کے والدین کی غفلت شامل ہے بلکہ ریاست بھی اپنا کردار درست طور پر ادا نہیں کر رہی۔

سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ بچوں کی محنت مشقت کے لیے غربت کو بہانہ بنانا درست نہیں۔ بچوں کو تعلیم اور تحفظ مہیا کرنا اور اُن کی بہبود کے لیے قانون سازی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔