1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس نے سعودی ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے

22 اپریل 2020

کورونا وائرس سعودی عرب کے ليے دو دھاری تلوار ثابت ہوا ہے۔ ایک طرف تو اسے عالمی سطح پر گرتی ہوئی تیل کی قیمتوں سے دھچکہ لگا ہے جبکہ دوسری طرف رجعت پسندوں کی واپسی کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ ملک ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔

https://p.dw.com/p/3bFiP
Saudi-Arabien Diriyah Coronavirus
تصویر: picture-alliance/abaca/Balkis Press

سعودی عرب دو طریقوں سے کورونا بحران سے دوچار ہے۔ اپریل کے وسط میں، ریاض حکومت کو اوپیک + آئل پروڈکشن کارٹیل کے دیگر ممبر ممالک کے ساتھ مل کر، تيل کی پیداوار میں زبردست کمی پر راضی ہونا پڑا تھا اور اب مئی اور جون میں توقع ہے کہ ریاض حکومت کو اس میں روزانہ 9.7 ملین بیرل کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، جو پچھلے پیداواری حجم کا دس فیصد بنتی ہے۔

Saudi-Arabien Riad Coronavirus
تصویر: picture-alliance/abaca/Balkis Press

بہرحال، اوپیک ممالک کو تیل بیچنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ کورونا بحران کی وجہ سے، عالمی سطح پر تیل کی کھپت میں 30 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ خریدار ممالک میں اب ذخیرہ کرنے کی مزید گنجائش نہیں ہے۔ چونکہ اس صورتحال میں تیل کوئی نہیں خریدتا، لہذا خام تیل کی قیمت میں مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔ پیر کی شام، امریکی لائٹ آئل برانڈ ڈبلیو ٹی آئی کی قیمت گر کر منفی ہو گئی: فی بیرل قیمت منفی 40  ڈالر تک گر گئی تھی۔ سعودی عرب اس سے قبل روس کے ساتھ تيل کی قیمتوں کی جنگ لڑ چکا ہے اس کے باوجود اسے محصول میں ہونے والی بڑے پیمانے پر کمی سے نمٹنا پڑے گا۔

انفیکشن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ

خام تیل کی قیمتوں کا بحران ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عرب بادشاہت میں بھی کورونا وائرس سے متاثرہ شہریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اندازوں کے مطابق صرف منگل کے روز انفیکشن کے 10،500 کیسز رپورٹ ہوئے۔ سعودی عرب میں اس وائرس سے 103 افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ خاص طور پر پریشان کن امر انفیکشن میں تیزی سے اضافہ ہے۔

نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق متاثرہ افراد میں شاہی خاندان کے 150 افراد بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان متعدد وزراء کے ہمراہ بحیرہ احمر پر واقع شہر جدہ میں ہیں۔ اخبار کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ وبائی امراض شاہی خاندان تک بھی پہنچ چکے ہیں۔

Saudi-Arabien Riad Coronavirus
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency

مہمان کارکنوں کی غیر یقینی صورتحال

ریاض سمیت ملک بھر کے متعدد شہروں میں مکمل کرفیو نافذ ہے جبکہ ملک بھر میں دوپہر 3 بجے سے صبح 6 بجے تک کا کرفیو ہے۔ صوبوں کے درمیان سفر کے ساتھ ساتھ شہروں میں داخل ہونے اور وہاں سے انخلا کی اجازت نہیں ہے۔

اس کے باوجود کورونا وائرس پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ ملک میں رہنے والے 9 لاکھ مہمان کارکنوں کی تنگ اور گنجان آباد رہائشیں انفیکشن کے پھیلاؤ کا ایک خطرناک ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ کچھ سعودی کمپنیاں اب انہیں ملازمت نہیں دے رہیں اور نہ ہی انہیں اجرت مل رہی ہے۔ ان مہمان کارکنوں کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ دیگر خلیجی ریاستوں میں مہمان کارکنوں کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق، خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کی ریاستوں میں لگ بھگ 35 ملین تارکین وطن مزدور رہتے ہیں۔ وہ وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

مذہبی اصلاحات کا سلسلہ خطرے میں

کورونا وائرس ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے ايماء پر شروع کيے گئے داخلی اور ثقافتی اصلاحات کورس پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔ اس وبائی بیماری کا شاہی خاندان کے ساتھ تعاون کرنے والے وہابی مبلغین کے لیے یہی مطلب ہے کہ ان کی واپسی تو نہیں ہوئی لیکن عوامی سطح پر ان کو زیادہ توجہ حاصل ہوئی ہے۔ ان علماء کے پاس سیاسی طاقت تھی اور اس بنا پر وہابیوں کے ليے غير معمولی اثر و رسوخ حاصل کیا گیا تھا۔ مذہبی اسکالرز نے السعود خاندان کی حکمرانی کو قانونی حیثیت دینے کے ليے اس اثر و رسوخ کا استعمال کیا۔ ولی عہد شہزادہ ایم بی ایس ایک جدید ریاست چاہتے ہیں۔

لندن اسکول آف اکنامکس کیمبرج سے منسلک مذہبی ماہر بشریات مدوی الرشید، وہابیوں کے اثر و رسوخ کی مثال دیتے ہوئے کہتی ہيں، ''صرف 20 ویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں، انہوں نے تیس ہزار سے زیادہ فتوے جاری کیے ہوں گے۔ ان میں، انہوں نے روزمرہ زندگی کے تمام قابل فہم سوالات پر ایک مؤقف اختیار کيا۔ ان کا ایک خاص مقصد تھا: انہوں نے لوگوں کی توجہ پوری طرح مذہب کی طرف مبذول کرائی۔ اس کا نتيجہ یہ ہوا کہ سیاسی  سمیت مزید موضوعات پر شاید ہی کوئی توجہ دی جاسکے گی۔

Ölfeld in Saudi-Arabien
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Haider

 خاتون اسکالر الرشید نے اپنی کتاب "Contesting the Saudi state" میں اسے وہابیوں کے نئے فتووں کا نہ ختم ہونے والا بہاؤ قرار دیا ہے۔

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے "وژن 2030" میں کٹر وہابیت کو مملکت کے ریاستی مذہب کے طور پر شامل کرنا بھی موجود ہے- شہزادہ محمد بن سلمان جانتے ہيں کہ سنی اسلام کی انتہائی قدامت پسند شکل کے بارے میں کافی تحفظات پائے جاتے ہیں ، خاص طور پر مغربی ممالک میں جو ریاست کے اہم تجارتی پارٹنر ہیں۔ اس ليے شہزادہ محمد بن سلمان کا جدید ریاست کا بنانے کا فارمولا ایک ایسا کردار ادا کرتا ہے جسے تجارتی تعلقات کو بڑھانے اور گہرا کرنے میں ہی نہیں، بلکہ مغرب کے ساتھ سیاسی اور ثقافتی تعلقات کو بہتر بنانے میں بھی کم اہميت کا حامل نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

کرسٹن کنپ ، اسماعیل اعزم/ ک م، ع ا