1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا کی عالمی وبا سے پاکستانی اقتصاديات کيسے متاثر ہو گی؟

عاصم سلیم
24 جولائی 2020

پاکستان کی کمزور اقتصاديات ميں بہتری کے آثار نمودار ہونا شروع ہی ہوئے تھے کہ کورونا کے بحران کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ماہرين کو خدشہ ہے کہ اس بحران کے معاشی و مالياتی نقصانات حکومت کی تمام تر کوششوں کی نفی کا سبب بنيں گے۔

https://p.dw.com/p/3frXx
Karachi Pakistan traders Strike against IMF budget
تصویر: DW/R. Saeed

پاکستان ميں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کے کيسز ميں دن بدن کمی ہو رہی ہے۔ چوبيس جولائی کو ملک ميں کورونا کے متاثرين کی تعداد دو لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے کہ جبکہ پانچ ہزار سات سو سے زائد اس وبائی مرض سے ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔ پچھلے چوبيس گھنٹوں کے دوران صرف بارہ سو سے زائد کيسز سامنے آئے جبکہ جون کے وسط ميں يوميہ کيسز اوسطاً پانچ سے چھ ہزار تھے۔

پچھلے ہفتے صدر عارف علوی نے قوم کو کورونا کو شکست دينے پر مبارک باد دی۔ ايک مقامی نشرياتی ادارے سے بات چيت ميں صدر علوی نے دعویٰ کيا کہ حکومت ملک کی غريب آبادی کو اس بحران کے منفی اثرات سے تحفظ فراہم کرنے ميں کامياب رہی۔ وزير اعظم عمران خان نے بھی کيسز ميں کمی کو 'اسمارٹ لاک ڈاؤن پاليسی‘ کا نتيجہ قرار ديا ہے۔ ماہرين البتہ ان کی اس رائے سے متفق نہيں۔

وسائل کی صورت حال اور اقتصاديات

پاکستان کی ايک تہائی آبادی خط غربت سے نيچے زندگی گزار رہی ہے۔ آبادی کا مزيد ايک تہائی حصہ نچلے يا لوئر مڈل کلاس ميں شامل ہے۔ مجموعی طور پر لگ بھگ چھياسٹھ فيصد آبادی خط غربت کے آس پاس زندگی گزار رہی ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ 145 ملين افراد کو مدد درکار ہے۔

گيلپ کے ايک حاليہ سروے کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے نتيجے ميں پاکستان ميں بے روزگاری کی شرح اٹھائيس فيصد تک پہنچ سکتی ہے۔ امکان ہے کہ آئندہ مالی سال ميں بے روز گار افراد کی تعداد 6.64 ملين تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے خدشات بھی ہيں کہ طويل المدتی لاک ڈاؤن فارمل سيکٹر ميں تيس فيصد افرادی قوت کی بے روز گاری کا باعث بن سکتا ہے، جس سے نجی سيکٹر کو 190 بلين روپے کا نقصان ہو گا۔

انويسٹمنٹ بينکر خرم شہزاد نے ڈی ڈبلير اردو سے گفتگو ميں نشاندہی کی کہ وبا کے باعث پاکستانی اقتصاديات ميں پندرہ بلين ڈالر کی گراوٹ کا امکان ہے جبکہ رواں سال کی چوتھی سہ ماہی ميں مجموعی قومی پيداوار دس فيصد تک گھٹ سکتی ہے۔ سال رواں ميں اقتصادی نمو کی شرح صفر يا منفی دو فيصد تک رہ سکتی ہے۔

يونائٹڈ نيشنر ڈيولپمنٹ پروگرام (UNDP) کے مطابق عورتيں، بچے، معزور افراد، بزرگ اور اقليتيں اس صورتحال سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔ يو اين ڈی پی کے مطابق پاکستان ميں اس وقت تقريباً بياليس ملين بچے تعليم کی سہولت سے محروم ہيں۔ ملک ميں سترہ ملين سے زائد بچوں کو ويکسين نہيں مل پا رہيں۔ چاليس ملين افراد کو پہلے ہی کھانے پينے کی اشياء کی قلت کا سامنا تھا، جس ميں وبا کی وجہ سے قريب ڈھائی ملين افراد کا اضافہ ہو گيا ہے۔

پاکستانی نظام صحت کا وبا سے پہلے بھی برا حال تھا۔ يو اين ڈی پی کے مطابق ملک ميں ہر 963 افراد کے ليے ايک ڈاکٹر ہے جبکہ ہر 1,608 افراد کے ليے اوسطاً ہسپتال کا ايک بستر ميسر ہے۔ ملک کو دو لاکھ ڈاکٹرز اور چودہ لاکھ نرسوں کی کمی کا سامنا ہے۔

ماہرين نے تنبيہ کی ہے کہ لاک ڈاؤن سے زراعت بھی متاثر ہو گی جبکہ ٹرانسپورٹ، مزدوروں اور خام مال کی فراہمی ميں خلل کے باعث آئندہ برس کے ليے بھی يہ سيکٹر متاثر ہو گا۔

Pakistan 5. Unternehmerinnen-Messe in Peschawar
تصویر: DW/F. Khan

ماہرين مستقبل کيسا ديکھتے ہيں؟

کراچی اسٹاک ايکسچينج کے سابق ڈائريٹکر ظفر موتی نے ڈی ڈبليو اردو کو بتايا کہ فنانشل مارکيٹوں ميں دوبارہ استحکام دکھائی دے رہا ہے مگر وہ وبا کے طويل المدتی اثرات سے فکر مند ہيں۔ ''پاکستانی معيشت گراوٹ کی طرف بڑھ رہی ہے، بے روز گاری بڑھ رہی اور کئی سيکٹرز بحران کا شکار ہيں۔ پاکستانی ايکسپورٹس ميں ٹيکسٹائل مصنوعات ريڑھ کی ہڈی کی حيثيت رکھتی ہيں ليکن وبا کے بعد کے دور ميں ايسی مصنوعات کی طلب کم ہو گی۔ نتيجتاً ايکسپورٹس پر بھی اثر پڑے گا، پاکستانی روپے کی قدر پر بھی اور پھر يقيناً زر مبادلہ کے ذخائر پر بھی۔‘‘

صحافی حمزہ فاروق حبيب صدر پاکستان کے غريب آدمی کو ريلنف دينے کی دعوی کو بھی شک کی نگاہ سے ديکھتے ہيں۔ '' نيشنل انسٹيٹيوٹ آف ہيلتھ کے ايک حاليہ سروے کے مطابق دارالحکومت اسلام آباد ميں کورونا کے مريضوں کی حتمی تعداد تين لاکھ کے آس پاس ہے بکہ حکومت يہ تعداد پندرہ ہزار کے قريب بتا رہی ہے۔‘‘ حمزہ کے بقول کورونا کی وبا کو پاکستانی حکومت شروع ہی سے نظر انداز کر رہی ہے اور اس کی شدت کو کم بتا رہی ہے۔ ''ممکنہ طور پر اس کی وجہ ملکی اقتصاديات کو پٹری سے اترنے سے بچانا ہو سکتی ہے۔‘‘

اسٹاک مارکيٹوں ميں استحکام کو بھی حمزہ اقتصاديات ميں استحکام کا شارہ نہيں مانتے۔ ''فنانشل مارکيٹوں ميں استحکام کا مطلب ہے کہ لوگ شارٹ ٹرم انويسٹمنٹ کی طرف جا رہے ہيں۔ انٹرنيشنل مانيٹری فنڈ کے قرضے اور وبا کی وجہ سے پيدا ہونے والی غير يقننی صورتحال کے باعث سرمايہ کار طويل المدتی بنيادوں پر پيسہ لگانے سے گزير کر رہے ہيں۔‘‘

 حکومت عوام کو ريليف دينے کے ليے کيا کچھ کر رہی ہے؟

پچھلے سال پاکستان کو آئی ايم ايف سے چھ بلين ڈالر کا قرضہ لينا پڑا۔ ابھی ملکی معيشت سنبھل ہی رہی تھی کہ وبا ٹوٹ پڑی۔ عمران خان کا شروع ميں ملک گير سطح پر لاک ڈاون متعارف نہ کرانے کا فيصلہ ممکنہ طور پر غريب طبقے کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی تھا مگر اس تاخير کے نتائج بھی سامنے آئے۔

وزير اعظم پاکستان نے اسی طبقے کی مدد کے ليے يکم اپريل کو احساس ايمرجنسی کيش پروگرام شروع کيا، جس کا مقصد وبا کے دور ميں مالی اعتبار سے سب سے نازک طبقے کی مدد تھا۔ پروگرام کے تحت    بارہ ملين گھرانوں کو چند ماہ کے ليے بارہ ہزار روپے ماہانہ فراہم کيے گئے۔

وفاقی حکومت نے ايک اعشاريہ دو ٹريلين روپے کا ريکوری پيکج منظور کيا ہے جبکہ صوبائی حکومتيں بھی اپنی اپنی سطح پر چھوٹے پيکجز پر کام کر رہی ہيں۔ اسلام آباد نے کاروباروں کے ليے ٹيکسوں ميں کٹوتی کی مد ميں ايک سو بلين کی چھوٹ دينے کا بھی کہہ رکھا ہے۔

ليکن سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کيا يہ سب کافی ہو گا؟ حمزہ فاروق حبيب کے مطابق مينوفيکچرنگ يا پيداواری سيکٹر ميں دوبارہ سرگرمياں بحال ہو رہی ہيں مگر پاکستان کو وبا کے اثرات سے بچنے کے ليے ملازمت کے مواقع مکا اتنظام کرنا پڑے گا۔ ''گو کہ خطے کے ديگر ملکوں کے مقابلے ميں احساس پروگرام مقابلتاً بہتر اور بروقت سامنے لايا گيا مگر يہ فوری حل ہے اور طويل المدتی بنيادوں پر حل نہيں۔‘‘

حقيقت يہی ہے کہ آئندہ ايک دو برس اقتصادی لحاظ سے پاکستان کے ليے مشکل ثابت ہو سکتے ہيں اور غريب طبقہ ہی سب سے زيادہ متاثرہ طبقہ رہے گا۔

وبا کے دوران مریضوں، ان کے اہل خانہ اور طبی عملے کے لیے مفت کھانا