1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

’کورونا کے آغاز کی تلاش کا عمل سیاست سے زہر آلود ہو رہا ہے‘

29 مئی 2021

عالمی ادارہ صحت کے مطابق  کورونا وائرس کے نقطہ آغاز کی تلاش کی کوششوں کو سیاسی مداخلت سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ بیان بائیڈن کی طرف سے ملکی انٹیلیجنس سے چین میں اس وائرس کے آغا سے متعلق رپورٹ طلب کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3u9HT
Schweiz PK Michael Ryan WHO
تصویر: picture-alliance/Keystone/S. Di Nolfi

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے 28 مئی جمعے کے روز متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے نقطہ آغاز کی تفتیش کی کوششوں کو سیاست کی آمیزش سے پامال کیا جا رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت میں ایمرجنسیز یا ہنگامی حالات کے شعبے کے سربراہ مائیکل رائن نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''میں کہوں گا کہ سائنس کو سیاست سے الگ رکھا جائے اور ہمیں ان جوابات کو تلاش کرنے دیں جس کے لیے ہمیں مناسب اور مثبت ماحول کی ضرورت ہے۔ اس پورے عمل کو سیاست کی وجہ سے زہر آلود کیا جا رہا ہے۔‘‘

ڈبلیو ایچ او کی ووہان رپورٹ پر سوالات

حالیہ دنوں میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او پر اس بات کے لیے ایک بار پھر سے دباؤ شروع ہوا ہے کہ کورونا وائرس کے نقطہ آغاز کا پتہ لگانے کے لیے اس کی مزید گہرائی سے تفتیش ہونی چاہیے۔

Schweiz WHO Coronavirus Covid-19
تصویر: picture-alliance/dpa/S. di Nolfi

اس برس کے اوائل میں ادارے کی ایک ٹیم اس کی تفتیش کے لیے چین کے شہر ووہان گئی تھی جہاں سب سے پہلے اس وبا کا انکشاف ہوا تھا۔ ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے ووہان میں چار ہفتے کا وقت گزارنے کے بعد اپنی ایک تفتیشی رپورٹ میں کہا تھا کہ غالب امکان یہی ہے کہ یہ وائرس چمگادڑ سے انسانوں میں کسی تیسرے جانور کے توسط سے پہنچا۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ کسی، ’’لیب یا تجربہ گاہ سے اس وآئرس کا وجود میں آنا انتہائی نا ممکن بات معلوم ہوتی ہے۔‘‘

 لیکن اس کے باوجود بہت سے سیاست دانوں اور بعض سائنسدانوں کا خيال یہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی تفتیش کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے میں ناکام رہی ہے۔

ووہان سے متعلق امریکی دعوی کیا ہے؟

اسی ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے  کورونا وائرس کے نقطہ آغاز یا اس کے ماخذ کی گہرائی سے تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے تفتیشی اداروں سے اس کی پھر سے جانچ کرنے کو کہا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی حتمی جانچ ہونی چاہیے کہ آخر وائرس کسی جانور سے انسانوں تک پہنچا یا پھر  لیب سے وجود میں آيا۔

بائیڈن کے مطابق امریکی انٹیلیجنس برادری کی اکثریت نے بھی انہی دو ممکنہ منظر ناموں کے آس پاس ہی کام کیا ہے جس میں سے ایک یہ ہے کہ یہ وائرس کسی متاثرہ جانور کے ساتھ رابطے میں آنے سے انسانوں میں پھیلا یا پھر دوسرا یہ کہ یہ کسی تجربہ گاہ میں حادثاتی طور پر پیدا ہوا۔ تاہم کسی کو بھی اس کا حتمی علم نہیں ہے کہ آخر حقیقت کیا ہے اور اسی حقیقت کی دریافت کے لیے گہرائی سے تفتیش کی ضرورت  ہے۔

اس سے قبل امریکی وال اسٹریٹ جرنل نے انٹیلیجنس ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی تھی کہ ووہان کے وبائی امراض کے مرکز میں کام کرنے والے تین محقیقین کو نومبر 2019 میں کورونا جیسی علامات کے ساتھ ہسپتال داخل کرایا گیا تھا۔

اسی خبر کے بعد ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے ملکی خفیہ ایجنسیوں کو اس وائرس کے ماخذ کے بارے میں تین ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا کہا تھا۔ اس وائرس سے اب تک 35 لاکھ سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

  ص / ا ب ا (اے ایف پی، روئٹرز)

نئے کورونا وائرس کے علاج کے ليے افريقہ ميں ’معجزاتی دوا‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں