1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوپن ہیگن کانفرنس: جرمنی اور یورپی یونین کا موقف

3 دسمبر 2009

ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس سات دسمبر سے شروع ہو کر اٹھارہ دسمبر تک جاری رہے گی۔

https://p.dw.com/p/Kpsq
جرمن وزیرماحولیات برسلز میں یورپی یونین کی ماحولیات کےحوالےسے وزارتی کانفرنس کے موقع پرتصویر: AP

ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں چند ہی روز میں شروع ہونے والی، اقوام متحدہ کی ماحولیاتی سربراہی کانفرنس میں، دنیا بھر سے آنے والے رہنما ظاہر ہے کہ تحفظ ماحول ہی کے بارے میں بات چیت کریں گے، اور ہر حال میں کسی نہ کسی اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوششیں بھی کی جائیں گی۔ اس صمن میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس بارے میں جرمنی اور یورپی یونین کا موقف کیا ہے؟ کیا کسی بڑے عالمگیر فیصلے تک پہنچنے کے لئے یورپ دیگر ملکوں کو بھی اپنی مقابلتا زیادہ ماحول دوست سوچ کا قائل کر سکے گا؟

اس عالمی اجتماع میں شرکت کا وعدہ کرنے والے سربراہان مملکت و حکومت کی تعداد ایک مہینہ پہلے تک صرف تینتیس تھی، جو اب اٹھانوے ہو چکی ہے۔ ان میں امریکی صدر باراک اوباما بھی شامل ہوں گے، وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی، اور بہت سے دیگر یورپی، ایشیائی اور افریقی سربراہان بھی۔ کانفرنس کے میزبان ملک ڈنمارک کے وزیر اعظم لارس لوئکے راسموسن کے بقول اتنے زیادہ عالمی سربراہان کی اس کانفرنس میں شرکت سے اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ عالمی برادری بین الاقوامی سطح پر تحفظ ماحول کے سلسلے میں اپنی کوششوں میں نہ صرف سنجیدہ ہے، بلکہ یہ بھی کہ یہ کوششیں صحیح سمت میں کی جارہی ہیں۔

امریکی صدر اس کانفرنس میں نو دسمبر کو شریک ہوں گے، جس کے بعد وہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو جائیں گے، جہاں وہ نوبل امن انعام وصول کریں گے۔

Klimawandel, Globale Erwärmung
یورپی یونین میں اس حوالے سے خاصا اتفاق رائے پایا جاتا ہےتصویر: AP

کوپن ہیگن کانفرنس کے میزبان ملک ڈنمارک نے اس اجتماع میں تفصیلی بحث کے لئے اب تک جو تجاویز مرتب کی ہیں، اُن میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ عالمی سطح پر زہریلی سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں سن 2050ء تک 50 فیصد کی کمی جانا چاہیے۔ اس تجویز پر کئی بڑے ترقی پذیر ملکوں کو اعتراض بھی ہے، مثلا چین اور بھارت جیسی ریاستوں کو۔ بھارتی وزیر ماحولیات جے رام رامیش کہتے ہیں کہ اگر ڈنمارک کی اس تجویز کو کوپن ہیگن میں شرکاء کے مابین بحث کا مرکزی موضوع مان لیا جائے، تو یہ بات یقینی ہے کہ اس کانفرنس میں بحث بہت زیادہ ہو گی، اور کسی بڑے نتیجے تک پہنچنے کا امکان کافی کم۔ ایسے میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ یورپی یونین کے رکن ملکوں کا عالمی سطح پر تحفظ ماحول کے بارے میں موقف کیا ہے؟

یورپی یونین کے رکن ستائیس ملکوں کے وزرائے ماحولیات کے مابین دسمبر کے اوائل تک کئی بار جو تفصیلی مشاورت ہوئی، اُس میں ایک بہت اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئے، نہ صرف فضائی سفر کے شعبے میں کاربن گیسوں کے اخراج کی شرح میں کمی لائی جائے، بلکہ بین الاقوامی جہازرانی کے شعبے میں بھی اسی طرح کے نئے وضع کئے گئے ضابطوں کا اطلاق ہونا چاہیے۔ یورپی یونین کے موجودہ صدر ملک سویڈن کے وزیر ماحولیات آندریاس کارل گرَین کہتے ہیں: "یورپی یونین کوپن ہیگن میں ان مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ ہم ہر فریق کے ساتھ تفصیلی مکالمت کے خواہش مند ہیں۔ اس لئے کہ ہم کوپن ہیگن میں کسی نئے معاہدے تک پہنچنا چاہتے ہیں۔"

یورپی ملکوں کی خواہش ہے کہ وہ اپنے ہاں سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں بیس فیصد تک کمی کریں۔ لیکن اگر عالمی سطح پر ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والے بڑے ملک، مثلا امریکہ، چین اور بھارت بھی اس حوالے سے یورپ کے ہم قدم رہیں، تو یورپی ریاستیں اپنے ہاں زہریلی گیسوں کے اخراج میں تیس فیصد تک کمی پر بھی تیار ہو جائیں گی۔ ان حالات میں یورپی ملکوں کی امریکہ سے وابستہ توقعات بہت واضح ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک جرمنی میں وفاقی وزیر ماحولیات کے عہدے پر فائز رہنے والے اور اس وقت اپوزیشن کی جماعت SPD کے نئے رہنما زِیگمار گابریئل کہتے ہیں: "بہت سی باتوں کا انحصار امریکہ پر ہے۔ لیکن ساتھ ہی یورپی ملکوں اور اُن کے عوام پر بھی۔ ہمیں تحفظ ماحول کی کوششوں کے سلسلے میں اپنی قائدانہ حیثیت کے عملی ثبوت مہیا کرنا ہوں گے۔ امریکہ پر اور زیادہ ماحول دوست، سیاسی فیصلے کرنے کے لئے مزید دباؤ صرف اسی طرح ڈالا جا سکتا ہے۔"

Neues Klimaschutz-Paket für die EU verabschiedet Flash-Galerie
یورپی یونین گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں واضح کمی چاہتی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

یورپی یونین میں شامل ملک یہ بھی چاہتے ہیں کہ مغربی دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے یورپ خود اچھی سے اچھی مثالیں قائم کرے۔ لیکن ترقی پذیر ریاستوں کو بھی تحفظ ماحول کے لئے کہیں زیادہ عملی اقدمات کی ترغیب دی جانا چاہیے۔ اس کے لئے یورپ ایسی ریاستوں کو اربوں یورو مالیت کی ترقیاتی امداد دینے پر بھی تیار ہے۔ اس بارے میں یورپی یونین کے ماحولیاتی امور کے نگران کمشنر ستاوروس دِیماس کہتے ہیں: "اگر مالی وسائل استعمال نہ کئے گئے، تو کوئی سمجھوتہ بھی طے نہیں پا سکے گا۔ کوپن ہیگن میں مذاکرات کی میز پر اگر ترقیاتی اور مالی امداد کی یقین دہانیاں نہ کرائی گئیں، تو ہم کسی معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔"

ترقی پذیر ملکوں کے لئے مالی امداد کے ذریعے ہی ان معاشروں میں تحفظ ماحول کے دیرپا مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں، یہ بات اس لئے درست اور منطقی ہے کہ اکثر غریب ریاستیں اپنے ہاں روزمرہ کے مسائل پر قابو پانے کی جنگ اس طرح لڑنے پر مجبور ہوتی ہیں کہ وہ اپنے آج میں زندہ رہنے کو کوششیں کرتے ہوئے، آنے والے کل پر زیادہ توجہ نہیں دے پاتیں۔ ایسے میں اگر امیر ممالک اُن کی مدد کرتے ہیں، تو اُن کے لئے اپنے بہتر مستقبل کی منزل کا حصول قدرے آسان ہو جائے گا۔

رپورٹ : مقبول ملک

ادارت : عاطف بلوچ