1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا کورونا وائرس واقعی خدا کا عذاب ہے؟

عاصم سلیم
24 جون 2020

پاکستان ميں ان دنوں کورونا وائرس تيزی سے پھيل رہا ہے۔ تجزيہ کاروں اورسماجی امور کے ماہرين کا کہنا ہے کہ وبا سے نمٹنے ميں وفاقی حکومت کی ناقص کارکردگی اور عوام ميں سازشی نظريات پر اعتماد کی وجہ سے صورتحال بگڑی۔

https://p.dw.com/p/3eFy4
Pakistan Peschawar Coronavirus
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed

پاکستانی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق چوبيس جون کو ملک ميں نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ايک لاکھ نوے ہزار کے قريب ہے۔ تين ہزار نو سو کے قريب افراد اس بيماری کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔ اندازے کے مطابق اس ماہ کے اختتام تک متاثرين کی تعداد تين لاکھ اور جولائی کے اواخر يا اگست کے اوائل تک ايک ملين تک پہنچنے کے امکانات ہيں۔ عالمی ادارہ صحت نے جون کے وسط ميں خبردار کيا تھا کہ پاکستان ميں انفيکشن ريٹ 22.6 ہو گيا ہے۔ صرف جون ہی کے مہينے ميں نئے انفيکشن يوميہ ايک ہزار سے بڑھ کر اوسطاً چھ ہزار تک پہنچ گئے ہيں۔

امپیريل کالج لندن اور يونيورسٹی آف واشنگٹن نے سائنسی ماڈلنگ کی روشنی ميں يہ خدشہ بھی ظاہر کيا ہے کہ پاکستان ميں وائرس کے متاثرين کی حقيقی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے تين سے دس گنا زيادہ ہو سکتی ہے۔

حکومتی حکمت عملی پر سواليہ نشان

اس گھمبير صورت حال کے باوجود حکومت پاکستان نے ملک گير سطح پر لاک ڈاؤن ميں نرمياں متعارف کرائيں  اور غير ملکی سياحت کے ليے بھی دروازے کھول ديے۔ مارچ ميں جب پاکستان ميں متاثرين کی تعداد ڈھائی سو کے لگ بھگ تھی، وزير اعظم عمران خان نے اپنی ايک تقرير ميں نئے کورونا وائرس کا موازنہ ايک عام سے نزلے زکام سے کيا تھا۔ سترہ مارچ کو ٹيلی وژن پر قوم سے اپنے خطاب ميں عمران خان نے دعویٰ کيا تھا کہ ستانوے فيصد مريض خود ہی صحت ياب ہو جائيں گے۔ انہوں نے اسی وقت يہ کہہ کر لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی شروع کر دی تھی کہ پاکستان کی پچيس فيصد عوام خط غربت سے نيچے زندگی بسر کرتی ہے اور ايسے حالات ميں پابندياں ممکن نہيں۔

Pakistan Rawalpindi Coronavirus
تصویر: picture-alliance/Zumapress

پاکستان ميں کورونا وائرس کب اور کہاں سے پھيلا؟

پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز کی تصديق چھبيس فروری کو ہوئی تھی۔ مارچ ميں جب متاثرين کی تعداد کافی محدود تھی حکومت نے ايران سے آنے والے شيعہ زائرين کو بلوچستان سے داخل ہونے کی اجازت دی۔ ان زائرين کے لیے قرنطينہ کا ناقص انتظام  تھا، اکثر جگہوں پر قرنطینہ کا کوسی بندوبست ہی نہیں تھا، جس کے سبب انفيکشن پھيلا۔ پھر تبليغی اجتماعات کو بھی نہيں روکا گيا، جس سے صورت حال مزيد بگڑی۔ بالآخر يکم اپريل سے ملک گير سطح پر لاک ڈاؤن نافذ کيا گيا، جو نو مئی تک رہا۔

عيد الفطر سے قبل تاجر برادری اور مذہبی حلقوں کے دباؤ ميں حکومت نے اکثريتی پابندياں ختم کر ديں اور وزير اعظم خان نے لوگوں کو خود احتياطی تدابير اپنانے کو کہا۔ عوام نے ايسا نہ کيا اور عيد کے موقع پر  باہر نکل کر خريداری کی۔ نتيجتاً کيسز مسلسل بڑھتے رہے اور پھر وزير اعظم نے لوگوں کو ہی اس صورتحال کا قصور وار ٹھہرايا۔

کیسے اندازہ لگایا جائے کہ وبا پھیلے گی یا کم ہو گی؟

جھٹلانے کا رجحان اور سازشی نظريات پر يقين

گيلپ پاکستان کے ايک تازہ مطالعے کے مطابق پاکستان ميں پچپن فيصد عوام کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر  پيش کيا گيا ہے۔ مارکيٹ ريسرچ  کے ايک اور ادارے 'اپسوس‘ کے مطابق صرف تين فيصد پاکستانی شہری کورونا وائرس کے حوالے سے کسی شک و شبے ميں مبتلا نہيں۔ ماہرين حکومت پر الزام عائد کرتے ہيں کہ وہ غير حقيقی معلومات کے پھیلاؤ اور بے بنياد دعوں کو کچلنے ميں ناکام رہی۔ حکومت کی ناقص کارکردگی اور عوام ميں حکومت پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے بھی سازشی نظريات نے اپنی جگہ بنائی۔

پاکستانی تجزيہ نگار اور سينئر صحافی اويس توہيد کے مطابق سازشی نظريات ہميشہ ہی سے پاکستانی معاشرے کا حصہ رہے ہيں، چاہے موجودہ عالمی وبا کا معاملہ ہو يا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا۔ ان کے بقول پاکستانيوں کی اکثريت نے 'حقيقت کو جھٹلانے‘ ميں پناہ تلاش کی۔ ''پاکستان ميں مذہب اور سياست دونوں نے وبا کو بگاڑنے ميں کردار ادا کيا۔‘‘ اويس توہيد نے مزيد کہا، ''کورونا وائرس مشرق سے زيادہ مغرب ميں جان ليوا ثابت ہوا ہے، يہ سفيد فام لوگوں کو زيادہ ہلاک کر تا ہے اور 'پاکستاں ميں لوگوں کی قوت مدافعت مضبوط ہے‘ وغيرہ جيسے نظریات نے وائرس کے پھيلاؤ ميں اہم کردار ادا کيا۔‘‘ سول سوسائٹی کا يہ بھی الزام ہے کہ حکومت نے وبا کے باوجود مذہبی حلقوں کو ناراض نہ کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی۔

اوکاڑہ يونيورسٹی کے وائس چانسلر اور سماجيات کے پروفيسر محمد ذکريہ ذاکر نے ڈی ڈبليو اردو سے بات چيت ميں کہا کہ ملک ميں سائنس کا کلچر نہيں پيدا کيا گيا اور اسی ليے لوگ معاملات کو سائنسی نظر سے ديکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہيں۔ ''اگر کسی کو کورونا وائرس ہو جائے، تو اکثر لوگ کہتے ہيں کہ متعلقہ شخص گناہ گار ہے اور اس پر خدا کا عذاب نازل ہوا ہے۔‘‘

پروفيسر ذاکر کے مطابق مذہبی قدامت پسندی، قصے کہانيوں پر يقين اور تعليم کی کمی چند ايسی اہم وجوہات ہيں جن کی وجہ سے لوگ سازشی نظريات پر زيادہ يقين رکھتے ہيں اور اپنے سامنے موجود حقائق کو جھٹلاتے ہيں۔ انہوں نے مزيد کہا کہ صرف کم اور درميانی آمدنی والے طبقے اس سے متاثر نہيں بلکہ متوسط طبقوں ميں بھی ايسا ہی رجحان ديکھا گيا ہے۔

واضح رہے کہ اپريل ميں معروف مذہبی شخصيت مولانا طارق جميل نے اپنے ايک بيان ميں کہا تھا کہ کورونا وائرس بد اخلاق يا بد کردار عورتوں کی وجہ سے پھيلا ہے۔

جولائی اور اگست انتہائی خطرناک مہينے

عالمی ادارہ صحت نے پاکستان سے ملک گير سطح پر دو ہفتوں کے ليے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ملک ميں ڈاکٹروں اور اپوزيشن سياسی جماعتوں کا بھی يہی مطالبہ ہے مگر اسلام آباد حکومت اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنائی ہوئے ہے۔