1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيمنٹز ميں مہاجرين مخالف جذبات کیسے ٹھنڈے ہوں گے؟

1 ستمبر 2018

جرمن شہر کيمنٹز ميں انتہائی دائيں بازو کے مختلف گروپوں کے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ سياسی مبصرين ملک ميں اس تشدد اور بد امنی پر فکر مند ہيں۔ پڑھیے کہ کيمنٹز ميں حالات کيسے اور کيوں بگڑے اور ان کا حل کیا ہو سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/3496A
Chemnitz Demo gegen Migranten
تصویر: Getty Images/O. Andersen

مشرقی جرمن شہر کيمنٹز ان دنوں مہاجرين مخالف مظاہروں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ ستر سے زائد تنظيميں اور کلبز يکم ستمبر کے روز ايک ريلی ميں شرکت کر رہے ہيں، جس ميں پوليس کے اندازوں کے مطابق لگ بھگ دس ہزار افراد کی شرکت متوقع ہے۔ ايک طرف دائيں بازو کی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ (AfD) اور اسلام مخالف تنظيم پيگيڈا کے حامی ہيں تو ان کے مد مقابل درجنوں تنظيميں ’نفرت کی جگہ دل کھولنے‘ کے عنوان تلے سڑکوں پر نکل رہی ہيں۔

Deutschland Tatort in Chemnitz
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Woitas

کيمنٹز ميں کس واقعے کے بعد احتجاج شروع ہوا؟

پچھلے ہفتے کے روز يعنی پچيس اگست کی رات کيمنٹز ميں تين افراد کے درميان جھگڑا ہو گيا۔ ان ميں سے ايک نے چاقو نکال کر حملہ کيا۔ جھگڑے ميں تينوں افراد زخمی ہوئے تاہم جرمن شہری ڈينيئل ايچ بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال ميں چل بسا۔

ڈينيئل کی عمر پينتيس برس تھی۔ اس ہلاکت کی خبر سوشل ميڈيا پر آگ کی طرح بڑی تيزی سے پھيل گئی، جس ميں بالخصوص ان تينوں افراد کی شہريت بحث کا مرکز بنتی رہی۔ جھگڑے ميں ملوث ديگر دو افراد ميں ايک تيئس سالہ شامی اور ايک بائيس سالہ عراقی شامل تھے۔ دونوں کو قتل کے شبے پر پير ستائيس اگست کو حراست ميں لے ليا گيا۔

مظاہروں اور ريليوں کا آغاز کيسے ہوا؟

دريں اثناء اتوار کی شب انتہائی دائيں بازو کے عموماً ’ہوليگنز‘ کہلانے والے ايک گروپ نے ايک مجمع اکھٹا کيا، جس کا مقصد يہ دکھانا تھا کہ ’شہر کے معاملات کس کے ہاتھوں ميں ہيں‘۔ اس اجتماع ميں قريب آٹھ سو افراد شريک ہوئے، جن ميں انتہائی دائيں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے بھی شامل تھے۔

سوشل ميڈيا پر سامنے آنے والی رپورٹوں ميں اس گروپ کے چند افراد کو ’غير ملکی‘ دکھنے والے افراد کا جارحانہ انداز ميں پيچھا کرتے ہوئے ديکھا جا سکتا ہے۔ ايسے حملوں کا شکار بننے والے چند افراد نے بعد ازاں رپورٹيں بھی درج کرائيں۔ علاوہ ازيں ويڈيو فوٹيج ميں چند افراد کو پوليس اہلکاروں پر حملے کرتے ہوئے بھی ديکھا جا سکتا ہے۔

بعد ازاں انتہائی دائيں بازو کے گروپ ’پرو کيمنٹز‘ کی حمايت ميں پير ستائيس اگست کو کيمنٹز شہر کے مرکز ميں لگ بھگ چھ ہزار افراد جمع ہوئے۔ پير کو وہاں ايسے افراد کو تنظيميں بھی جمع تھيں، جو مہاجرين کے حق ميں آواز بلند کر رہی تھيں تاہم رات قريب نو بجے کے بعد حالات بگڑ گئے۔ کئی افراد کو ’نازی‘ دور کا مخصوص سلیوٹ کرتے ہوئے ديکھا گيا، جو جرمنی ميں ايک جرم ہے۔ مظاہرين نے پوليس پر پتھراؤ کيا اور بوتليں پھينکيں۔ کيمنٹز ميں اس وقت چھ سو سے زائد پوليس اہلکار جمع تھے، جو ان حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ تشدد ميں دو پوليس اہلکار اور اٹھارہ مظاہرين زخمی ہوئے۔

مہاجرين ايک مرتبہ پھر احتجاج کا سبب بھی، شکار بھی

غلط فہمياں اور جھوٹی خبريں

اس دوران کہيں يہ افواہ بھی پھيل گئی کہ ڈينيئل ايچ ايک ايسی لڑکی کا دفاع کرتے ہوئے مارا گيا، جسے امکاناً ہراساں کيا گيا تھا۔ يہ خبر بھی بہت سے افراد کو اشتعال دلانے ميں مددگار ثابت ہوئی تاہم پوليس نے تفتيش کے بعد اس خبر کو مسترد کر ديا۔ مبصرین کے مطابق ان حالات میں بہتری کی خاطر مکالمت پر زور دیا جانا چاہیے اور غلط فہمیوں اور جھوٹی خبروں پر قابو پانا چاہیے۔

جرمن حکومت کا رد عمل کيا رہا؟

چانسلر انگيلا ميرکل نے بدھ کے روز اپنی کابينہ کے ارکان کے ساتھ کيمنٹز کے حالات پر تبادلہ خيال کيا۔ چوٹی کے تمام ہی ليڈران نے اس بات پر خصوصی زور ديا کہ سڑکوں پر کسی بھی قسم کا تشدد برداشت نہيں کيا جائے۔ گا۔ وفاقی وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر نے بعد ازاں کہا کہ کسی کو بھی قانون کو اپنے ہاتھوں ميں لينے کی اجازت نہيں دی جائے گی اور ايسے عوامل مکمل طور پر ناقابل قبول ہيں۔

مشتعل گروپوں تک وارنٹ کس نے پہنچايا؟

اس دوران يہ بھی ہوا کہ کسی نے مشتبہ اشخاص، ايک شامی اور ايک عراقی شہری، کی گرفتاری کے وارنٹس دائيں بازو کے گروپوں تک پہنچا ديے۔ يہ جرمنی ميں قابل سزا جرم ہے۔

تشدد بڑھنے ميں اس بات کا بڑا کردار ہے کہ تفتيش کے دوران ہی چند مشتعل افراد کو اس بارے ميں پتہ چل گيا کہ ڈينيئل ايچ کے قتل کے ليے دو غير ملکی مطلوب تھے۔ اس نے غير ملکی اور مہاجرين مخالف جذبات اور تشدد کو جنم ديا۔ بعد ازاں ايک پوليس اہلکار کو اس شبے پر اس کے عہدے سے فاردغ کر ديا گيا کہ اس نے يہ وارنٹ جاری کيا۔

میرا نازی باپ

ع س / ع ب، نيوز ايجنسياں