1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا آئندہ انتخابات پرامن ہوں گے؟

شیراز راج
29 جون 2018

پاکستان میں سکیورٹی امور کے ماہرین کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور سیاسی تشدد کا خدشہ ہے۔ اس ضمن میں ملکی اور غیر ملکی عناصر کے مبینہ گٹھ جوڑ کی بات کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/30X24
Pakistan Beerdigung von ermordetem Mädchen in Kasur
تصویر: Getty Images/AFP/G. Ahmed

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو وزارت داخلہ کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ کے مطابق چند ملکی اور بیرونی عناصر انتخابات کے موقع پر نمایاں سیاست دانوں کی ٹارگٹ کلنگ کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں بڑے پیمانے پر سیاسی تشدد کا خدشہ ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق دہشت گرد انتخابی عملہ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں اور نتیجتاً خوف کی ایسی فضا قائم ہو سکتی ہے کہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہ رہے۔ سینٹ کمیٹی کے سربراہ رحمان ملک کے سوال کے جواب میں سیکرٹری داخلہ رضوان ملک نے کھلے اجلاس میں معلومات فراہم کرنے سے معذرت کر لی تاہم اتنا ضرور کہا کہ ان معلومات کی بنیاد پرسکیورٹی کی فول پروف منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔

اس ضمن میں بھارت، داعش، امریکہ اور طالبان کے مبینہ منصوبوں اور انکے ممکنہ نتائج کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے جہاں بہت دور کی کوڑیاں ملائی جا رہی ہیں، وہیں بعض ذمہ دار سکیورٹی ماہرین اور سیاسی و سماجی امور کے ماہرین بھی علاقائی اور عالمی طاقتوں کے مبینہ گٹھ جوڑ کا حوالہ دے رہے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ حال ہی میں طالبان لیڈر ملا ٰفضل اللہ کی ہلاکت کے ردعمل کے لیے انتخابی ماحول سے زیادہ بہتر موقع کیا ہو سکتا ہے؟ دوسری طرف افغان طالبان کی جانب سے دہشت گردی کے مسلسل واقعات کا پاکستان کے اندر ردعمل متوقع ہے۔ 2013ء کے انتخابات کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے کہ تب طالبان کی جانب سے دو سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک سو پچاس سے زائد کارکنوں کو ہلاک کیا گیا اور پیپلزپارٹی کو پنجاب میں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سکیورٹی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ یہی صورتحال پنجاب میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔

سینیئر صحافی تنویر قیصر شاہد نے جنوری 2018ء میں پاکستان بھر کے2000 علما کی جانب سے دہشت ٰگردی اور انتہا پسندی کے خلاف جاری کردہ فتوے کا ذکر کیا جسے 'پیغام پاکستان‘ کا نام دیا گیا۔ ملک کے تمام مذہبی مکاتب فکر کی جانب سے دہشت گردی کو حرام قرار دیے جانے کو ملک میں روزافزوں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے آگے بندھ باندھنے کی اہم کوشش کہا گیا۔ تاہم اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں کہ اس خوش آئند اقدام کے باوجود عملی طور پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے واقعات روکے نہیں جا سکے۔ مثال کے طور پر خیبر پختونخواہ میں  معروف سکھ راہنما چرن جیت کا قتل، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ، ڈیرہ مراد جمالی سے ہندو تاجر کا اغوأ، اور سیالکوٹ میں احمدیو‍ں کی عبادت گاہ کا انہدام ایسے واقعات ہیں جنہوں نے 'پیغام پاکستان' کے متوقع مثبت اثرات پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ تنویر قیصر کہتے ہیں، "بھارت اور داعش نے پاکستان کے خلاف گٹھ ٰجوڑ کر رکھا ہے۔ بھارت کو یہ بات تکلیف پہنچا رہی ہے کہ پاکستان اور روس کے باہمی تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں۔"  

   

عام انتخابات 2018ء میں حصہ لینے والی ترقی پسند اور جمہوریت نواز جماعتوں، قومی و بین الاقوامی میڈیا اور سول سوسائٹی مسلسل تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ انتخابی مہموں کے دوران مذہب کو بطور نعرہ استعمال کرنے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ سکیورٹی امور پر گہری نگاہ رکھنے والے معروف صحافی سلیم صافی کے مطابق، "دہشت گردوں کو معلوم ہے کہ سیاست دان انتخابی مہموں میں ضرور شامل ہوں گے۔ دوسری اعلیٰ عدلیہ نے بلٹ پروف گاڑیوں کی ممانعت اور  سیاست دانوں کو پولیس سکیورٹی فراہم کرنے پر پابندی لگا کر سیاست دانوں کو مزید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر میاں افتخار حسین دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں لیکن اپنے وسائل سے اپنی سکیورٹی کا بندوبست نہیں کر سکتے۔"

یاد رہے کہ 24 جولائی 2010ء کو دہشت گردوں نے میاں افتخار حسین کے نوجوان بیٹے کو قتل کر دیا تھا۔ سلیم صافی کا خیال ہے کہ، "اس مرتبہ تشدد کی لہر خیبر پختونخواہ تک محدود نہیں رہے گی۔ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ پنجاب بھی تشدد کی لہر کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملوں جیسے واقعات مزید ہوسکتے ہیں اور سوشل میڈیا پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس مرتبہ الزامات، جوابی الزامات، مذہبی تعصب پر مبنی نفرت انگیزی، کردار کشی، مغلضات اور فتووں کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔"

مذہبی جماعتوں، فرقہ وارانہ تنظیموں اور دہشت گردی جیسے مسائل پر تحقیق کرنے والے معروف لکھاری، عظمت عباس کی کتاب، 'پاکستان میں مذہبی مدرسوں کی تاریخ' حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "آئندہ انتخابات میں وہ تنظیمیں بھی امیدوار کھڑے کر رہی ہیں جن پر اندرون ملک اور بیروں ملک دہشت گردی کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ دوسری جانب علامہ خادم رضوی کی جماعت  'تحریک لبیک یا رسول اللہ' ختم نبوت کا نعرہ لے کر انتخابی میدان میں اتری ہے۔ حتٰی کہ پاکستان تحریک انصاف بھی ختم نبوت کے مسئلہ کو انتخابی نعرہ بنا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے عامر لیاقت حسین کراچی میں خود کو احمدی مخالف اور ختم نبوت کے محافظ کے طور پر پیش کر رہے ہیں جبکہ لاہور میں پی ٹی آئی کی یاسمین رشید بھی اپنے پوسٹرز میں سوال کر رہی ہیں کہ کیا انکے حلقے کے ووٹر شاتم رسول، سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے 'عاشق رسول'، ممتاز قادری کوپھانسی دینے والی مسلم لیگ ن کو ووٹ دیں گے؟"

پاکستان کے معروف صحافی، سیاسی تجزیہ کار اور ماہر عمرانیات، ضیغم خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "موجودہ صورت حال ماضی کی نسبت بہت سنگین ہے۔ اس سے قبل تشدد میں ملوث تمام تنظیمں چھوٹے گروہوں پر مشتمل تھیں، کسی کمانڈ کے تحت تھیں اور عوامی حمایت سے محروم تھیں۔ مگر خادم رضوی کی پرائیویٹ جہاد پالیسی بہت خطرناک ہو سکتی ہے جس کے تحت ان کا کہنا ہے کہ ہر شخص قانون کو ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ یہ ایک عوامی حمایت یافتہ گروپ ہے۔ ایک اعتبار سے یہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی بھی کر رہا ہے اور انکی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے کارکنوں کے کاندھوں سے اخلاقیات اور اصولوں کا تمام بوجھ اتار پھینکا ہے۔ یہ ذہنی کیفیت فاشزم کو جنم دیتی ہے۔ جسکی وجہ سے آئندہ انتخابات میں  خدانخواستہ گروہی تشدد کے امکان کوبعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔"

ماہرین اور مبصرین کے مطابق حال ہی میں پیپلز پارٹی نے بھی ایک فرقہ کے مدرسہ کو بھاری رقم کا عطیہ دیا ہے اور پنجاب میں، مبینہ طور پر مسلم لیگ ن کی صفوں میں فرقہ پرست تنظیموں کے کارکن ضلعی عہدوں پر فائز ہیں۔ اس مرتبہ فرقہ پرست اور مبینہ طور پر دہشت گرد تنظیموں کے سینکڑوں کارکن انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو 'قومی دھارے میں لانے کی پالیسی معاشرے اور جمہوریت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

ایک اطلاع کے مطابق الیکشن کمشن کی درخواست پر وزارت دفاع نے عام انتخابات کے لیے تین لاکھ فوجی تعینات کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ اس مقصد کے لیے تینوں مسلح افواج کے ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔   

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں