1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشمالی امریکہ

کیا امریکا بیجنگ اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کرے گا؟

19 نومبر 2021

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ چین میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپک کھیلوں کا سفارتی بائیکاٹ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کئی امور پر شدید اختلافات کے سبب کشیدگی پائی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/43DM4
USA I Biden bei der Unterzeichnung des Infrastrukturgesetzes
تصویر: Susan Walsh/AP/picture alliance

میکسیکو اور کینیڈا کے رہنماؤں سے ملاقات سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی انتظامیہ آئندہ برس چین کے شہر بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپک کھیلوں کے سفارتی بائیکاٹ پر غور کر رہی ہے۔ 

اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا مطلب یہ ہو گا کہ گیمز میں شرکت کے لیے کسی امریکی اہلکار کو نہیں بھیجا جائے گا۔ امریکا اور چین کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان اس طرح کے فیصلے کا اعلان کیا گیا ہے۔

گزشتہ پیر کومسٹر جو بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ پہلی بار براہ راست بات چیت کی تھی۔ تاہم وائٹ ہاؤس میں، بائیڈن کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ امریکا اور چین کے رہنماؤں کے درمیان جو تین گھنٹے کی ورچوئل میٹنگ ہوئی اس دوران اولمپکس پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔

امریکا کی حکمراں ڈیموکریٹک اوراپوزیشن ریپبلکن، دونوں ہی جماعتوں کے قانون سازوں نے چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بطور احتجاج سفارتی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن سفارتی بائیکاٹ سے کھلاڑیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ محترمہ ساکی کا کہنا تھا کا امریکا اب بھی اپنے اس موقف کو حتمی شکل دینے کی کوشش میں ہے کہ آخر اس صورت میں ان کھیلوں میں، ''ہماری موجودگی کس نوعیت کی رہے گی۔''  یہ سرمائی کھیل آئندہ چار فروری سے شروع ہونے والے ہیں۔

امریکا چین پر صوبہ سنکیانگ میں اقلیتی مسلم ایغوروں کی نسل کشی کا الزام لگا تا رہا ہے۔ ہانگ کانگ میں مبینہ سیاسی آزادی دبانے کے حوالے سے بھی امریکا اور چین کے درمیان تناؤ پایا جاتا ہے۔

USA Washington | Joe Biden empfängt Manuel Lopes Obrador und Justin Trudeau
تصویر: Mandel Ngan/AFP/Getty Images

مسٹر بائیڈن نے سفارتی بائیکاٹ سے متعلق اپنا بیان ایسے وقت دیا جب وہ وائٹ ہاؤس میں میکسیکو کے صدر اینڈرس مینوئل لوپیز اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے باضابطہ بات چیت کے لیے میزبانی کر رہے تھے۔

تینوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی اس سمٹ کا نام ''تھری امیگوس'' دیا گیا ہے۔ اس میں سرحدی مسائل، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ٹیکس کی رعایت، کووِڈ سے متعلق احتیاطی تدابیر اور دیگر مسائل پر توجہ مرکوز کیے جانے کی توقع ہے۔

بائیکاٹ کا مطالبہ

گزشتہ ماہ، امریکی سینیٹرز نے ایک بل کے مسودے میں ترمیم کی تجویز پیش کی تھی جس کے تحت امریکی محکمہ خارجہ کو اولمپک کھیلوں میں امریکی سفارت کاروں کو ''مدد یا سہولت فراہم'' کرنے کے لیے سرکاری فنڈز دینے کی اجازت نہیں ہو گی۔

کانگریس میں سب سے سینیئر ڈیموکریٹ رہنما نینسی پیلوسی نے سفارتی بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو امریکی رہنما اس میں شرکت کریں گے وہ اپنا، ''اخلاقی اختیار'' کھو دیں گے۔

ریپبلکن سینیٹر ٹام کاٹن نے بھی جمعرات کو کہا، ''نسل کش اولمپکس'' کا سفارتی بائیکاٹ ''بہت چھوٹی اور بہت تاخیر سے'' اٹھایا گیا قدم ہو گا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام امریکی کھلاڑیوں، عہدیداروں اور امریکی کارپوریٹ اسپانسرز کو بھی اس کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنا چاہیے۔''

ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اقوام متحدہ میں امریکا کی سابق نمائندہ نکی ہیلی نے بھی ان کھیلوں کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

 ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

چین کے 70 برس پر ایک نظر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں