1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتجرمنی

کیا جرمنی کو عالمگیریت پر نئے سرے سے غور کی ضرورت ہے؟

7 جنوری 2024

بعض ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر باہم مربوط موجودہ اقتصادی نظام ناکام ہو چکا ہے۔ اسی لیے اب عالمگیریت کو نئے سرے سے جانچنے اور خود مختاری، دولت مندی اور استحکام کے معنی کو دوبارہ سمجھنے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4arLp
اقتصادی عالمگیریت کے موجودہ نظام میں عالمی معیشتیں آپس میں مربوط ہو کر کام کرتی ہیں
اقتصادی عالمگیریت کے موجودہ نظام میں عالمی معیشتیں آپس میں مربوط ہو کر کام کرتی ہیںتصویر: Klaus Ohlenschlaeger/Zoonar/imago images

عالمگیریت یا گلوبلائزیشن مشکل دور سے گزری ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر اشیاء کی بروقت  ترسیل کا سلسلہ متاثر ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ کووڈ انیس کی عالمی وبا کے باعث لگنے والی پابندیوں اور آمد و رفت میں سختیوں کے سبب بھی مسائل پیدا ہوئے۔ پھر یوکرینی جنگ اور روسی کمپنیوں پر پابندیوں نے حالات کو اور بھی ابتر کر دیا۔ ان وجوہات کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایندھن اور اشیائے  خور و نوش کی قیمتیں بھی بہت بڑھ گئیں اور اس کا جس کا خمیازہ بھی عام صارفین ہی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چین کی معاشی ترقی کی رفتار سست ہو گئی

تو کیا یہ ورلڈ آرڈر یا عالمی نظام ناکام ہوتا جا رہا ہے؟ کیا یہ موجودہ نظام اس قابل ہے بھی کہ اسے بچایا جا سکے؟ جرمنی کے کِیل انسٹیٹیوٹ فار ورلڈ اکانومی کے صدر مورِٹس شُولارِک کے مطابق دنیا تبدیل ہو رہی ہے، چناچہ اقتصادی عالمگیریت کو بھی ایک نئے سرے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

جرمن نقطہ نظر سے عالمگیریت کی تشکیل نو

شُولارِک کے مطابق چین کے ساتھ تجارت پر انحصار کرنے والی اقتصادی شرح نمو میں اضافے، روس سے سستے ایندھن کی درآمد اور دفاعی اخراجات کو کم سے کم رکھنے کی صورت میں جرمنی نے جو تین بڑی بازیاں لگائیں، ان سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔

بعض ماہرین اقتصادیات کے مطابق عالمی سطح پر باہم مربوط موجودہ اقتصادی نظام ناکام ہو چکا ہے
بعض ماہرین اقتصادیات کے مطابق عالمی سطح پر باہم مربوط موجودہ اقتصادی نظام ناکام ہو چکا ہےتصویر: Andrew Brookes/Westend61/imago images

جرمنی کے یہ تینوں فیصلے یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت کے لیے مضر ثابت ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود جرمنی کے لیے حالات میں بہتری کی گنجائش کافی زیادہ ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کے بجائے اب مستقبل پر توجہ دی جائے۔

مسائل میں سے ہی ان کے حل کی تلاش

روس سے سستی قدرتی گیس حاصل کرنے کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اب جرمنی اور باقی ماندہ یورپ کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کی اپنی اہلیت بڑھانے پر توجہ مرکوز کریں۔ اس دوران توانائی کے حصول کے لیے غیر روسی ذرائع کو بھی یقینی بنائیں تاکہ فوری ضروریات پورا ہوتی رہیں۔ یہ اقدامات ماحول کے لیے بھی بہتر ثابت ہوں گے۔

کورونا کی وجہ سے اقتصادی خلیج مزید گہری، غریب ترین سب سے زیادہ متاثر

اس کے علاوہ ایک مسئلہ جرمنی اور چین کے مابین پیچیدہ تعلقات بھی ہیں۔ شُولارِک کے مطابق چین ایک بڑا چیلنج اس لیے نہیں ہے کہ وہ طاقت ور ہے، بلکہ اصل مسئلہ اس کی کمزور ہوتی ہوئی معیشت ہے، جسے پے در پے کئی جھٹکے سہنا پڑے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چینی کمپنیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے، جو جرمنی کی ہائی ٹیک برآمدات خریدنے کی استعداد رکھتی ہیں۔ اس وجہ سے ممکن ہے کہ چین اپنی اقتصادی شرح نمو بڑھانے کے لیے اپنی صعنتوں کی جانب رخ کرتے ہوئے ان کی مزید برآمدات کا آغاز کر دے جس سے جرمنی بہرحال براہ راست متاثر ہو گا۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی جرمنی اور یورپی یونین کے رکن دیگر ممالک کو اپنا باہمی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔

کیا چینی اقتصادی ترقی تھم گئی ہے؟ کیا اب زوال کا وقت شروع ہو گیا؟

اپنے ہی ارد گرد کرنے کے ضروری کام

جرمنی کے کِیل انسٹیٹیوٹ فار ورلڈ اکانومی کے صدر مورِٹس شُولارِک کے مطابق  کوئی واحد بزنس یا کوئی ایک صعنت اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک وہ حکومت کے ساتھ مل کر اپنی کامیابی کے لیے کوئی لائحہ عمل طے نہ کر لے۔

کورونا کے باعث جرمن معیشت کو ساڑھے تین سو بلین یورو کا خسارہ

یہ ایک بروقت تنبیہ ہے کیونکہ کئی اندازوں کے مطابق سن 2024 میں ممکن ہے کہ جرمنی کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں ترقی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہے۔ لہٰذا بڑی تبدیلیاں لانے کے لیے متعلقہ حلقوں کو آخر کس طرح قائل کیا جائے؟

ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں اس حوالے سے مورِٹس شُولارِک کا کہنا تھا، ''میرے خیال میں سیاست اور تعلیم و تحقیق کے ماہرین کے مابین مسلسل رابطہ کاری کو بہتر بنایا جانا چاہیے، خصوصاﹰ عالمی معاملات پر نظر رکھتے ہوئے۔‘‘

ان کے مطابق جرمنی میں کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لیے کئی قواعد موجود تو ہیں لیکن بحرانوں سے حقیقی طور پر نمٹنے کی تیاری ناکافی ہے۔ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے برلن میں تھنک ٹینکس، میڈیا، ریسرچ اور سائنس کی مدد سے ایک فکری انفراسٹرکچر کی تعمیر اشد ضروری ہے۔

کورونا وبا: ’جرمنی جتنا نقصان کسی دوسری یورپی معیشت کا نہیں ہوا‘

عالمی سلامتی بمقابلہ معاشی کارکردگی

یہ بات بظاہر ذرا غیر واضح محسوس ہو سکتی ہے۔ مگر زیادہ واضح طور پر کہا جائے تو عالمگیریت کی تنظیم نو کا مطلب مقامی طور پر پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہو سکتا ہے تاکہ ضروری اشیاء کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ ایسی صنعتوں پر توجہ کم کر دی جائے، جن کے لیے بہت زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔

کمپنیوں کے لیے اس کا مطلب ہے کہ اپنی مصنوعات یا خدمات کی پیداوار اور فروخت کے میدان میں تنوع لایا جائے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ خام مال دستیاب۔ یہ سب بڑی تبدیلیاں ہیں جو دہائیوں کے باہمی انحصار کو ختم کردیں گی۔

کیا موجودہ گلوبلائزڈ ورلڈ، ڈی گلوبلائزیشن کے دور میں داخل ہو رہی ہے؟

مورِٹس شُولارِک تاہم پھر بھی پرامید ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران گلوبلائزیشن یا عالمگیریت سے معاشی ترقی ممکن توہوئی۔ اگرچہ اس ترقی سے بھی زیادہ بہتری ممکن تھی، تاہم بہت سے لوگوں کو اس عالمگیریت سے فائدے تو ہوئے۔

آج لیکن دنیا 20 سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ پرامن اور زیادہ مستحکم نہیں ہے۔ اور یہی وہ ناکامی ہے جسے دوبارہ متوازن بنانے کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں تجارت کارکردگی اور سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جانا چاہیے۔ سوال لیکن یہی رہے گا: ''ہم کارکردگی میں کمی کی کیا قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں؟‘‘

ص خ / م م (ٹموتھی رُوکس)

کرسمس کی معیشت سب تہواروں پر حاوی