1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا جلد ہی انسانی جسموں میں خنزیروں کے دل دھڑکیں گے؟

امتیاز احمد آنے ہون
11 دسمبر 2018

جرمنی کے مشہور سرجن برونو رائشارٹ نے کامیابی کے ساتھ سرجری کرتے ہوئے ایک خنزیر کا دل ایک بن مانس کو لگا دیا ہے۔ اعضاء کے عطیات میں کمی کی وجہ سے مستقبل میں خنزیروں کے دل انسانوں کو بھی لگائے جا سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/39tmP
OP Schweineherz
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Müller

ڈاکٹر برونو رائشارٹ کی طرف سے کی جانے والی کامیاب سرجری کے بعد یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ سؤر کا دل کسی انسان میں بھی ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے دیگر جانوروں کے بجائے صرف خنزیر کے دل کو ہی موزوں ترین کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ میونخ کے یونیورسٹی ہسپتال کے پروفیسر برونو رائشارٹ کا اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اخلاقیات کا یہاں پر بنیادی کردار ہے۔ ہم ایک عرصے سے خنزیر کا گوشت کھا رہے ہیں اور معاشرتی سطح پر ان کا قتل قابل قبول ہے۔ ان کی افزائش نسل بھی بہت تیزی سے ہوتی ہے، یہ ہر چار ماہ بعد بچے پیدا کرتے ہیں اور چھ ماہ بعد یہ بالغ بھی ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کے دل کی ساخت بھی انسانی دل سے بہت ملتی جلتی ہے۔‘‘

Deutschland - Herzchirug Bruno Reichart
تصویر: Imago/A. Schmidhuber

دوسری جانب گزشتہ چالیس برسوں سے خنزیر کے دل کے والوز کو بھی انسانی دل کے والوز کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔  دل کی ٹرانسپلانٹیشن کا یہ تجربہ ایک بن مانس پر ہی کیوں کیا گیا ہے، اس حوالے سے پروفیسر  رائشارٹ بتاتے ہیں، ’’یہ طبی حکام کی شرط ہے۔ اعضاء کی ٹرانسپلانٹیشن کسی سؤر یا کتے کے بجائے حیاتیاتی طور پر انسان سے قریب ترین مشابہت رکھنے والے جانور میں کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ نتائج اخذ کرنے میں آسانی رہتی ہے کہ آیا اس طرح کا کوئی تجربہ انسانوں میں بھی کامیاب رہے گا۔‘‘

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی عام خنزیر کا دل کسی ضرورت مند انسان کو نہیں لگایا جا سکتا کیوں کہ اس طرح انسانی جسم اسے قبول نہیں کرتا، ’’کسی خنزیر کا دل ٹرانسپلانٹ کرنے سے پہلے اس میں جینیاتی تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔‘‘

دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ خنزیر کا دل کسی انسان کو لگانا مریض کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ اس میں انسانی دل کی طرح خون کو پمپ کرنے کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے اور اس کے جینز میں پایا جانے والا ڈی این اے بھی خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔

تاہم  پروفیسر برونو رائشارٹ اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان دعووں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔