1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا حکومت سول سوسائٹی کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
20 جون 2019

غیر سرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن کے لیے حکومت کی طرف سے ایک نئے مسودے کی خبروں نے سول سوسائٹی میں یہ خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ حکومت جمہوریت اور میڈیا  کو کنٹرول کرنے کے بعد  اب  سول سوسائٹی پر پابندیاں  عائد کرنا چاہتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3KmX6
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal

پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے این جی اوز پر سختیاں بڑھ گئی ہیں۔ پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لیے ایک بین الاقوامی این جی او کو  استعمال کیا گیا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ملک کے سکیورٹی اداروں نے اس معاملے کا سختی سے نوٹس لیا اور ایک پاکستانی ڈاکڑ کو بھی اس سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔ اسامہ  بن لادن کی ہلاکت سے لے کر اب تک سولہ سے زائد این جی اوز ملک چھوڑ کر جا چکی ہیں۔ کچھ مبصرین کے خیال میں ایسی این جی اوز کی تعداد تیس سے زیادہ ہے۔ کئی  این جی اوز کے لیے رجسٹریشن اور کام کرنے کے عمل کو بھی بہت سخت کر دیا گیا ۔ حال ہی میں ایک جرمن این جی او نے پاکستان میں اپنا آپریشن بند کیا اور اس کی وجہ کام کرنے میں بڑھتی ہوئی مشکلات بتائی گئیں۔ کچھ این جی اوز نے رجسٹریشن میں تاخیر پر عدالتوں سے بھی رجوع کیا ہوا ہے جب کہ کچھ نے وزارتِ داخلہ کو رجسٹریشن کے احیا کے لیے درخواستیں دی ہوئی ہیں۔

سول سوسائٹی اراکین کا خیال ہے کہ اس حکومتی اقدام سے ملک کے لاکھوں لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت نے سماجی ترقیاتی فنڈز میں زبردست کٹوتی کی ہے اور دوسری طرف این جی اوز پر بھی سختی کی جارہی ہے۔  اس  وجہ سے پاکستان میں انسانی ترقی مزید زوال پذیر ہوگی۔ اس حکومتی اقدام سے بلوچستان اور سابقہ فاٹا سمیت ملک کے پسماندہ علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار اور سول سوسائٹی کے رکن عامر حسین کا کہنا ہے کہ این جی اوز کے پاکستان سے چلے جانے سے  ہزاروں افراد بے روزگار ہورہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صرف سولہ ہزار افراد بڑی بین الاقوامی این جی اوز کے بند ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہوئے ہیں۔ ورلڈ لرننگ تولیدی صحت، تعلیم ، ہنرمندی سمیت کئی شعبوں میں جنوبی پنجاب میں کام کر رہی تھی۔ جس سے تقریبا دو لاکھ افراد کو فائدہ ہورہا ہے۔ لیکن حکومت نے تولیدی صحت کا پروجیکٹ یہ کہہ کر بند کرایا دیا کہ یہ سیکس ایجوکیشن ہے۔ اس کے بعد دوسرے پروجیکٹس بھی بند کرا دیے گئے لہٰذا لاکھوں افراد ایسی این جی اوز کے بند ہونے سے متاثر ہوئے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر چیز کو سکیورٹی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور اب کوشش کی جارہی ہے کہ سول سوسائٹی کو بھی کنٹرول کیا جائے۔

پاکستان: 18 انٹرنیشنل این جی اوز کو ملک سے نکل جانے کا حکم

جرمن این جی او نے پاکستان میں کام بند کر دیا

سول سوسائٹی کی ایک سرگرم کارکن  نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 'پلان انٹرنیشنل‘ زلزلے اور دوسری قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے لوگوں میں آگاہی بیدار کر رہی تھی لیکن سکیورٹی مسائل کی بنا پر انہیں ملک سے نکال دیا گیا۔ اسی طرح 'سیودی چلڈرن‘ پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی کے حوالے سے کام کر رہی تھی، اسے بھی ملک سے نکال دیا گیا ہے جس سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں اور اب  ان کا کوئی خیال کرنے والا نہیں ہے کیونکہ حکومت کے پاس سوشل سیکٹر کے لئے فنڈز ہی نہیں ہیں۔

ماضی میں 'ورلڈ ویژن‘ کے لیے کام کرنے والے لطیف اورکزئی کا کہنا ہے کہ حکومت سول سوسائٹی کو کنڑول کرنا چاہتی ہے اور نیا مسودہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کوبتایا، ''ورلڈ ویژن نے صرف ایک یونین  کونسل میں سولہ پانی کے پریشر پمپ لگائے۔ مجموعی طور پر انہوں نے تیس پریشر پمپس نصب کیے اور مزید لگانا چاہتے تھے۔ ایک پریشر پمپ سے قریب ستر گھرانوں کو فائدہ ہوا۔ آپ اندازہ لگا لیں کہ کتنے گھرانے اس سے مستفید ہوئے ہوں گے لیکن انہیں نکال دیا گیا۔ اب پنڈی کے غریب علاقوں میں سہولیات سے محروم لوگوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔‘‘

اس وقت اکنامک افیئرز ڈویژن، وزراتِ خزانہ، وزارتِ داخلہ، صوبائی سماجی بہبود کا شعبہ اور صوبائی صنعت کے شعبے سمیت کئی سرکاری ادارے این جی اوز کی رجسٹریشن اور نگرانی کے کاموں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ نئے مسودے میں گو کہ حکومت اس عمل کو اسٹریم لائن کر رہی ہے لیکن این جی اوز کی نگرانی سخت بھی ہونے جارہی ہے۔ معروف سماجی کارکن سرور باری کے خیال میں ماضی میں بھی ایسی پالیسیاں ناکام ہوئی ہیں اور اب بھی ہوں گیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کوبتایا، ’’دوہزار تیرہ سے این جی اوز کے لئے ماحول سازگار نہیں ہے جسے سازگار بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے وقتوں میں این جی اوز کے لیے جگہ مزید سکڑتی جائے گی۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے متعدد بار حکومتی وزراء اور عہدیداران سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا لیکن انہوں نے نہ تو فون اٹھایا اور نہ تحریری سوالات کے جوابات دیے۔

آئی ایس آئی نے نہیں، پولیس نے گرفتار کیا تھا، گلالئی