1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا سعودی عرب بھی بیلسٹک میزائل کی تیاری میں مصروف ہے؟

26 جنوری 2019

ایسے اندازے لگائے گئے یں کہ سعودی عرب بھی بیلسٹک میزائل کے آزمائشی تجربات میں مصروف ہے۔ اس تناظر میں اس شبے کو تقویت بعض سیٹلائٹ تصاویر سے حاصل ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3CFMX
Saudi-Arabien ballistische Raketen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Planet Labs Inc, Middlebury Institute of International Studies

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے بیلسٹک میزائل سازی کے پروگرام کو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک سابقہ بیان سے وزن ملتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران اپنے میزائل سازی کے سلسلے کو موقوف نہیں کرتا تو اُن کا ملک بھی بیلسٹک میزائل سازی کا پروگرام شروع کر سکتا ہے۔

سيٹلائٹ سے لی گئی تصاوير کی بنياد پر دفاعی ماہرين کی رائے ہے کہ سعودی عرب ميں ايک فوجی اڈے پر بيلسٹک ميزائلوں کے تجربات اور امکاناً پيداوار بھی شروع کر دی گئی ہے۔ دارالحکومت رياض سے 230 کلوميٹر مغرب کی طرف واقع شہر الدوادمی کے قریب واقع اس فوجی اڈے کی تصاوير کے بارے ميں سب سے پہلے ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہرمونیٹری میں واقع مِڈلبری انسٹیٹیوٹ برائے انٹرنیشنل سٹڈیز کے میزائل سازی کے ماہر جیفری لوئیس کا خیال ہے کہ میزائل سازی کے اتنے وسیع پراجیکٹس پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کو ایک طرح سے جوہری ہتھیار سازی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ جیفری لوئیس نے یہ بیان سیٹلائٹ امیجز کا مطالعہ کرنے کے بعد دیا۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک سعودی حکومت کی دفاعی صلاحیتوں کا اندازہ کم لگایا گیا ہے۔

Nordkorea Raketentest
فاعی ماہرين کی رائے ہے کہ سعودی عربں ايک فوجی اڈے پر بيلسٹک ميزائلوں کے تجربات جاری رکھے ہوئے ہےتصویر: picture-alliance/dpa/KCNA

تازہ تصاویر کے حوالے سے واشنگٹن کے بین الاقوامی اسٹریٹیجک  اسٹڈیز کے مرکز سے وابستہ مائیکل ایلیمین نے بھی اندازہ لگایا ہے کہ یہ بیلسٹک میزائل سازی کا سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ جیفری لوئیس نے میزائل ٹیکنالوجی کے حوالے سے واضح کیا کہ جسامت میں یہ چھوٹا میزائل ہے اور چینی میزائل ٹیکنالوجی کا شائبہ بھی محسوس ہوتا ہے۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ ہفتہ وار چھپنے والے دفاعی میگزین جین نے بھی سن 2013 میں الدوادمی کے خصوصی فوجی مرکز کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس فوجی مقام پر بیلسٹک میزائل کو داغنے کے دو لانچنگ پیڈز بظاہر چین سے خرید کر نصب کیے گئے تھے۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ميں سعودی سفارت خانے اور رياض حکومت نے اس بارے ميں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس تناظر میں یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ سعودی عرب نے بیلسٹک میزائل سازی کی ٹیکنالوجی کس ملک سے حاصل کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین کی جانب سے سعودی عرب کے لیے فوجی نوعیت کی ٹیکنالوجی کی فراہمی بعید از قیاس اور باعث حیرت نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں