1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پی ٹی ایم کی مقبولیت کا گراف گر رہا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
6 اگست 2018

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کچھ مرکزی رہنماؤں کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے پر پاکستان کے کچھ حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ یہ تحریک تفریق کا شکار ہوگئی ہے اور یہ کہ اس کی مقبولیت کا گراف دن بہ دن گرتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/32hAb
Pakistan Manzoor Pashtun
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary

پاکستان میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ پی ٹی ایم جن مطالبات کو لے کر چلی تھی، ان کو تسلیم کر لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اب یہ تنظیم موثر نہیں رہی۔ معروف تجزیہ نگار ریٹائرڈ میجر جنرل اعجاز اعوان کے خیال میں پی ٹی ایم اب سیاسی طور پر مردہ ہے۔ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’پی ٹی ایم کا مطالبہ تھا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے، اسے تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ایف سی آر کا بھی خاتمہ ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ چیک پوسٹوں کی تعداد کو بھی کم کر دیا گیا ہے۔ ان مطالبات کو مانے جانے کے بعد ان کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اسفندیار ولی اورمحمود خان اچکزئی پی ٹی ایم کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانا چاہتے تھے لیکن عوام نے انہیں بری طرح مسترد کر دیا ہے۔ تو میرے خیال میں اب پی ٹی ایم کی مقبولیت صفر ہوگئی ہے اور ان کے جلسوں میں وہ جوش و خروش نہیں ہوگا، جو پہلے ہوتا تھا۔‘‘

مالا کنڈ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی ایم کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ’’پی ٹی ایم کا یہ موقف تھا کہ اسے انتخابات نہیں لڑنے لیکن تحریک کے تین رہنماؤں نے پہلے انتخابات میں حصہ لینا کا فیصلہ کیا اور بعد میں تحریک کو اطلاع دی۔جس کی وجہ سے تحریک میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔اب بارہ اگست کو صوابی کا جلسہ اس بات کو ثابت کرے گا کہ ان اختلافات نے تحریک کو کس حد تک متاثر کیا ہے۔‘‘

تاہم پشارو سے تعلق رکھنے والے پی ٹی ایم کے رہنما ڈاکڑ سید عالم محسود کے خیال میں تحریک میں کوئی اختلاف نہیں اور تمام لوگ تحریک کے پلیٹ فارم پر متحد ہیں۔ ان کے مطابق، ’’ہم نے کافی عرصے سے کوئی بڑی سرگرمی نہیں کی کیوں کہ پہلے رمضان آیا اور پھر انتخابات کے شور میں سب کچھ دب گیا لیکن اس کے باوجود ہم نے کے پی میں ایک بڑا جلسہ کیا۔ تحریک میں کوئی اختلاف نہیں ۔ ہم نے کہا تھا کہ جو انتخابات لڑنا چاہتے ہیں وہ کور کمیٹی کا حصہ نہیں رہیں گے اور انتخابات لڑنے والوں نے کور کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ تو اس میں کوئی تفریق یا اختلافات والی بات تو نہیں ہے۔‘‘

معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں بھی بارہ اگست کا جلسہ اس بات کا غماز ہوگا کہ پی ٹی ایم کس حد تک اب بھی مقبول ہے۔ ’’گو کہ یہ جلسہ اے این پی کے گڑھ میں ہو رہا ہے اور اس میں مختلف جماعتوں کے لوگ بھی آئیں گے، لیکن پھر بھی اس سے کسی حد تک اندازہ ہوگا کہ پی ٹی ایم اب بھی کتنی مقبول ہے۔‘‘

اعجاز اعوان کے خیال کے بر عکس رحیم اللہ یوسف زئی کا خیال ہے کہ انتخابات کے بعد اے این پی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی پی ٹی ایم کے قریب آرہی ہیں۔ یوسف زئی کے مطابق، ’’پختون قوم پرستوں کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ ان کو جان بوجھ کر ایوان سے دور رکھا گیا۔ اس وجہ سے وہ بھی پی ٹی ایم والے نعرے اور بیانیے کو اپنا رہے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ہارون بلور پر حملے کے بعد اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جو جلسے ہوئے ہیں، ان میں اے این پی والوں نے وہی نعرے لگائے ہیں، جو پی ٹی ایم والے لگاتے تھے۔ تو نظر یہ آرہا ہے کہ یہ تنیوں ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔‘‘

منظور پشتین سے کچھ سوال اور ان کے جواب

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید