1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گھر گھر گيس پہنچانے والا مودی کا منصوبہ، جيت کے ليے کافی؟

28 اپریل 2019

سن 2022 تک بھارت کے ديہی علاقوں کے اسی ملين گھروں تک گيس فراہم کرنے کا منصوبہ گو کہ کئی عورتوں کی زندگيوں ميں تبديلی کا سبب بنا ہے تاہم اس اسکيم پر عمل درآمد ميں بدعنوانی اور رشوت خوری کے بھی کئی واقعات سامنے آئے ہيں۔

https://p.dw.com/p/3Ha8l
Kochen mit Gas in Indien
تصویر: DW/PM Tewari

رينا ديوی کی زندگی اس وقت بدل گئی، جب اس کے گھر ميں گيس کا کنکشن لگا۔ اب کھانا پکانے کے ليے اسے لکڑی يا کوئلے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی اسے خطرناک دھوئيں ميں سانس لينا پڑتا تھا۔ بھارتی وزير اعظم نريندر مودی کے کئی بلين ڈالر ماليت کے اس منصوبے کا مقصد بھی يہی تھا کہ لاکھوں گھروں تک گيس کی ترسيل ممکن بنائی جائے۔ اور يوں نہ صرف رينا ديوی جيسی ديہی علاقوں کی عورتوں کی زندگيوں ميں تبديلی لائی جائے بلکہ فضائی آلودگی ميں بھی کمی کی جائے۔ مودی کے ليے يہ منصوبہ انتخابات ميں ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی کا حصہ تھا تاہم منصوبے پر عمل درآمد ميں بدعنوانی کی کئی رپورٹيں بھی سامنے آئی ہيں۔

رينا ديوی کا دعویٰ ہے کہ اسے گيس کے چولہے کی کِٹ یوں تو بلامعاوضہ ملنا چاہیے تھی تاہم اس نے اس کے ليے تين ہزار روپے ادا کيے۔ يہ رقم ديوی کے نثار پورہ نامی گاؤں کے اکثريتی لوگوں کی ايک ماہ کی اوسط انفرادی تنخواہ کے برابر ہے۔ بھارت کی سب سے غريب رياست بہار کی رہائشی رينا ديوی نے بتايا، ’’ميں اہلکاروں سے التجا کرتی رہی کہ مجھے یہ کِٹ بلامعاوضہ فراہم کی جائے ليکن انہوں نے ميرے سامنے دو ہی راستے رکھے، يا تو ميں اس کِٹ کے ليے مطلوبہ رقم ادا کروں يا پھر اسے بھول جاؤں۔‘‘

اس اسکيم کے ناقدين کہتے ہيں کہ پروگرام ميں رشوت خوری اور کرپشن کے کئی کيس سامنے آئے ہيں۔ ان کا يہ بھی کہنا ہے کہ جو افراد اس اسکيم سے مستفيد ہوئے ہيں، وہ گيس کے سلنڈر دوبارہ بھروانے کی استطاعت نہيں رکھتے۔ نتيجتاً کئی لوگ جنہيں يہ گيس کِٹس فراہم کی گئيں، وہ دوبارہ روايتی طريقہ ہائے کار کی طرف واپس جا رہے ہيں۔ اس کے برعکس وزارت عظمٰی کی دوسری مدت کے خواہاں مودی اس اسکيم کو کامياب قرار ديتے ہيں۔ ان کی جماعت بھارتيہ جنتا پارٹی کا موقف ہے کہ اسی پروگرام کے نتيجے ميں اب ملک بھر ميں مزید کئی ملين گھروں ميں کھانا پکانے اور ديگر ضروريات کے ليے گيس کی سہولت ميسر ہے۔

بھارتی وزير اعظم نريندر مودی
بھارتی وزير اعظم نريندر مودی تصویر: Reuters/K. Hong-Ji

’اجالا يُوجنا‘ ہے کيا؟

نريندر مودی نے ’اجالا يوجنا‘ نامی اسکيم مئی سن 2016 ميں شروع کی تھی۔ اس کا مقصد سن 2022 تک بھارت کے ديہی علاقوں کے اسی ملين گھروں تک گيس کی سپلائی ممکن بنانا ہے۔ بھارت ميں گھروں کے اندر کھانا پکانے اور ديگر مقاصد کے ليے لکڑی اور دوسری طرح کے ایندھن کے استعمال سے اٹھنے والا دھواں عالمی ادارہ صحت کے مطابق انتہائی مظر صحت ہوتا ہے۔ ايسا دھواں عورتوں ميں سرطان اور دل کے امراض کا سبب بنتا ہے۔

ماحول دوست توانائی کے حصول کے ليے شروع کردہ اس اسکيم کے تحت ابتدا ميں لوگوں کو سولہ سو روپے کا قرض فراہم کيا جاتا ہے، جس سے در اصل گيس کا چولہا، سلنڈر اور پائپ وغيرہ ليا جاتا ہے۔ قرض کی رقم کم قيمت پر دستياب گيس کے سلنڈر دوبارہ بھرا کر ادا کرنا ہوتی ہے۔ نثار پورہ ميں کئی اور ايسی مثاليں موجود ہيں، جن ميں مقامی لوگوں سے رشوت طلب کی گئی يا پھر گيس کِٹس کی فراہمی کے ليے ان سے رقوم لی گئيں۔

بھارتی حکومت نے شروع ميں اس اسکيم کے ليے اسی بلين روپے مختص کيے تھے۔ اب اس رقم ميں اضافہ کر کے اسے 120 بلين روپے کر ديا گيا ہے۔ صرف بہار ہی ميں آٹھ ملين گھرانے گيس کٹس لگوا چکے ہيں ليکن ايک غير سرکاری تنظيم کی ايک رپورٹ کے مطابق بھارت کی چار سب سے بڑی رياستوں ميں اب بھی چھتيس فيصد لوگ کھانا پکانے کے ليے روايتی طريقہ ہائے کار اور روایتی ايندھن استعمال کرتے ہيں۔

گو کہ اس اسکيم سے منسلک کئی اسکينڈل بھی سامنے آئے ہيں تاہم ورلڈ ہيلتھ آرگنائزيشن کے مطابق بھارت ميں پچھلے دو برسوں کے دوران غربت کی لکير سے نيچے رہنے والی 37 ملين عورتيں اس منصوبے سے فائدہ اٹھا چکی ہيں۔

ع س / م م، نيوز ايجنسياں