1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہانگ کانگ میں مظاہرین نے سیاہ لباس پہن لیا

16 جون 2019

ہانگ کانگ میں آج اتوار کے دن بھی ہزارہا مظاہرین سڑکوں پر نکلے۔ سیاہ لباس میں ملبوس ان مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ چیف ایگزیکٹیو کیری لیم اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔

https://p.dw.com/p/3KXXC
Hongkong Proteste gegen Gesetz zur Auslieferung an China
تصویر: Getty Images/AFP/D. de la Rey

چین کے نیم خود مختار علاقے ہانگ کانگ کی انتظامیہ کی طرف سے مشتبہ افراد کو چین کے حوالے کیے جانے سے متعلق ایک متنازعہ قانون سازی کو معطل کرنے کے اعلان کے باوجود ہزاروں مظاہرین نے حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

سیاہ لباس میں ملبوس ان مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ اس قانون سازی کے عمل کو مکمل طور پر منسوخ کیا جائے اور اس کی وجہ سے شروع ہونے والی بدامنی کے نتیجے میں چیف ایگزیکٹیو کیری لیم اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔

بدھ کے دن سکیورٹی فورسز نے اس مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو منتشر کرنے کی خاطر طاقت کا استعمال کیا تھا اور ربر کی گولیاں بھی استعمال کی تھیں۔ اس تشدد کی وجہ سے ہانگ کانگ کا اقتصادی مرکز مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ کئی دنوں سے جاری ان مظاہروں کی وجہ سے ابھی تک صورتحال کشیدہ ہی ہے۔

ان مظاہروں کی وجہ سے چین کی حمایت یافتہ چیف ایگزیکٹیو کیری لیم کی انتظامیہ نے ہفتے کی دن ڈرامائی طور پر قانون سازی کے عمل کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ لیم نے حکومتی فورسز کی طرف سے تشدد پر 'گہرے غم اور افسوس‘ کا اظہار کیا تھا تاہم انہوں نے اس حوالے سے معذرت نہیں کی تھی۔

مظاہروں میں شریک سولہ سالہ طالبہ کیتھرین چیونگ نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ''کیری لیم نے معافی نہیں مانگی ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ وہ ایک بہت بری رہنما ہیں، جو جھوٹ بولتی ہیں۔ میرا خیال میں وہ اس قانون کے حوالے سے صرف ٹال مٹول کر رہی ہیں۔‘‘

ایک اور طالب علم سینڈی یپ کے بقول، ''ہم اس قانون کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہمیں لیم پر بھروسہ نہیں ہے۔ انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔‘‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ مشتبہ ملزمان کی چین حوالگی کا مجوزہ قانون دراصل ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی اور ایشیا میں اس کے بطور ایک اہم اقتصادی مرکز کی شناخت کے لیے خطرہ ہے۔ ان حالات کی وجہ سے ہانگ کانگ کے کئی بڑے تاجر اپنے کاروبار کو بیرون ممالک منتقل کرنا شروع ہو چکے ہیں۔

تاہم لیم کا کہنا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے ہانگ کانگ میں مجرمان کو کھلے عام کارروائیاں کرنے سے روکنے میں مدد ملے گی۔ ان کے بقول عدالتیں اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ انسانی حقوق کو یقینی بنایا جائے اور مجرمان کی چین حوالگی پر انفرادی طور پر فیصلے کیے جائیں۔

برطانیہ نے سن 1997 میں ہانگ کانگ کو واپس چین کے حوالے کیا تھا اور تب سے وہاں 'ایک ملک، دو نظام‘ کے تحت ریاستی انتظامات چلائے جا رہے ہیں۔ تاہم ہانگ کانگ کی نئی نسل ایک تبدیلی کی خواہاں ہے اور وہ چین کے تسلط سے آزادی چاہتی ہے۔

ع ب / ا ب ا / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں