1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہزاروں نئے رضاکار جنگجوؤں کا رخ شام کی طرف

امجد علی11 فروری 2015

امریکی انٹیلیجنس حکام کے مطابق غیر ملکی جنگجو اتنی بڑی تعداد میں شام کا رخ کر رہے ہیں کہ جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ کہ بیس ہزار سے زیادہ رضاکار اسلامک اسٹیٹ یا دیگر انتہا پسند گروپوں میں شامل ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1EZVT
تصویر: picture-alliance/AP Photo

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے واشنگٹن سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ یہ اعداد و شمار منگل کو انسدادِ دہشت گردی کے قومی امریکی سینٹر (NCTC)نے اپنے تازہ ترین اندازوں کی روشنی میں جاری کیے ہیں۔ اس سینٹر کا مزید کہنا ہے کہ دنیا کے نوّے ممالک سے رضاکار شام پہنچے ہیں، جن میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے بھی کم از کم تین ہزار چار سو رضاکار شامل ہیں۔ سینٹر کے مطابق ان میں سے بھی ایک سو پچاس سے زیادہ امریکی شہری ہیں۔

این سی ٹی سی کے مطابق یہ تعداد جنوری میں لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تب دنیا بھر سے شام کا رخ کرنے والے رضاکاروں کی تعداد کا اندازہ تقریباً اُنیس ہزار لگایا گیا تھا۔

بڑی تعداد میں شام کا رخ کرنے والے غیر ملکی رضاکاروں میں خواتین بھی شامل ہیں
بڑی تعداد میں شام کا رخ کرنے والے غیر ملکی رضاکاروں میں خواتین بھی شامل ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Syriadeeply.org

این سی ٹی سی کے ڈائریکٹر نکولس راسموسن نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ کوئی قطعی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں تاہم ’رجحانات واضح اور باعثِ تشویش‘ ہیں۔ اُنہوں نے یہ بیان کانگریس کی ایک سماعت کے لیے تیار کیا ہے، جو بدھ کے روز ہو رہی ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جس رفتار کے ساتھ اور جتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی رضاکار شام جا رہے ہیں، وہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران اسی مقصد کے لیے افغانستان، پاکستان، عراق، یمن یا پھر صومالیہ جانے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔

راسموسن کے مطابق یہ رضاکار ایک دوسرے سے مختلف پس منظر کے حامل ہیں اور انہیں کسی ایک خانے میں فِٹ نہیں کیا جا سکتا: ’’عراق اور شام میں جنگ کے میدانوں میں غیر ملکی جنگجوؤں کو لڑائی کے تجربے کے ساتھ ساتھ ہتھیار اور بارودی مواد استعمال کرنے کی تربیت ملتی ہے اور اُن کی ایسے دہشت گرد گروہوں تک رسائی ہوتی ہے، جو مغربی دنیا کو بھی نشانہ بنانے والے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

مغربی دنیا میں، خاص طور پر پیرس میں جہادیوں کے حالیہ حملوں میں سترہ افراد کی ہلاکت کے بعد سے اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی ’جنگجوؤں‘ کے شام کا سفر اختیار کرنے پر سخت تشویش پائی جاتی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ کوبانی پر قبضے کے لیے ہونے والی لڑائی میں بڑی تعداد میں ’آئی ایس‘ کے لیے لڑنے والے غیر ملکی بھی مارے گئے
بتایا گیا ہے کہ کوبانی پر قبضے کے لیے ہونے والی لڑائی میں بڑی تعداد میں ’آئی ایس‘ کے لیے لڑنے والے غیر ملکی بھی مارے گئےتصویر: Reuters/O. Orsal

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ترکی کی سرحد کے قریب واقع شامی شہر کوبانی پر قبضے کے لیے ایک ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی میں جو جہادی مارے گئے، اُن میں غیر ملکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔

راسموسن کے مطابق آئی ایس کے عسکریت پسند نئے رضاکار بھرتی کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کر رہے ہیں اور مختلف زبانوں میں اپیلیں جاری کر رہے ہیں۔ ویڈیو گیمز کے رسیا نوجوانوں کو مہم جوئی سے بھرپور زندگی کے خواب دکھائے جاتے ہیں اور اس طرح کے نعرے دیے جاتے ہیں کہ ’مرنا تو ایک ہی بار ہے تو پھر شہادت کی موت کیوں نہیں؟‘

ایسے زیادہ تر نوجوان ترکی کے راستے شام پہنچ رہے ہیں کیونکہ ترکی نے یورپی یونین کے رکن ملکوں سمیت 69 حکومتوں کے ساتھ ایسے معاہدے کر رکھے ہیں، جن کے تحت اِن ملکوں کے شہری ویزے کے بغیر ترکی جا سکتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ترکی نے سفری پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان غیر ملکی ’جنگجوؤں‘ کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوششیں کی ہیں اور ایک فہرست جاری کی ہے، جس کے تحت تقریباً دس ہزار افراد کے ترکی کے سفر پر پابندی عائد ہے۔ راسموسن کا کہنا ہے کہ اس طرح کے تمام تر اقدامات اپنی جگہ، ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردی کے لیے نوجوانوں میں پائی جانے والی ’کشش‘ کو کسی طرح سے ختم کیا جائے اور نوجوانوں کو اس طرح کی انتہا پسند تنظیموں میں شامل نہ ہونے کا قائل کیا جائے۔