1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہزاروں ڈالر کمانے والے کراچی جیل کے ہنرمند قیدی

20 دسمبر 2023

کراچی سینٹرل جیل میں سن 2007 میں ایک آرٹ پروگرام شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد طویل سزا کاٹںے والے اور سزائے موت پانے والے قیدیوں کی اصلاح کرنا ہے۔ بعض قیدی اس کمائی سے اپنے گھرانوں کی مالی مدد کے قابل ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4aNxL
Pakistan Ausstellung Artciti Karachi (Bildergalerie)
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan

نوآبادیاتی دور میں کراچی میں قائم کی گئی سینٹرل جیل کی دیواریں دیہی زندگی کے رنگوں سے مزین ہیں اور انہیں اسی جیل میں قید سزا یافتہ قاتلوں اور اغوا کاروں نے پینٹ کیا ہے۔ یہ مجرم معمول کی دنیاوی زندگی سے دور ہیں لیکن وہ جیل کی دیواروں کے اندر ایک ہنر سیکھ رہے ہیں۔

جیل حکام کے مطابق قیدیوں کی بحالی کے لیے فن اور موسیقی کے پروگرام میں کچھ قیدیوں کو مقامی آرٹس کونسل کے تعاون سے نمائشوں میں اپنا کام کئی ہزار ڈالر میں فروخت کرتے دیکھا گیا۔

Pakistan Karachi | Mörder und Entführer verkaufen Kunst aus pakistanischem Gefängnis
کراچی جیل میں ملاقاتیوں کے لیے قائم کمرے کی بیرونی دیوار پر پینٹ کرتا ہوا ایک قیدی تصویر: Asif Hassan/AFP

 ایسے ہی ایک قیدی آرٹسٹ محمد اعجاز نے جیل میں قائم  اسٹوڈیو سے اے ایف پی کو بتایا، ''جیل جانے سے قبل میری ایک اور زندگی تھی، جس میں کوئی ذمہ داری نہیں  تھی اور ناپختگی تھی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''لیکن مجھے زندگی کا صحیح مطلب جیل میں بند ہونے کے بعد سے ملا ہے۔جیل نے ہمیں سکھایا ہے کہ زندگی رنگوں سے بھری ہے اور رنگ خود بولتے ہیں۔‘‘

 اعجاز اغوا کے مقدمے میں 25 سال کی سزا میں سے نصف گزار چکے ہیں۔ جیل میں قید ہونے کے باوجود انہوں نے گھوڑوں کی تصویر کشی کے اپنے فن سے بھاری رقم کمائی ہے۔ انہوں نے اسی رقم سے اپنی والدہ کو حج کروایا اور اپنی بہن کی شادی کا بندوبست کیا۔ 42 سالہ اعجاز کے مطابق، ''شروع میں میرے خاندان کو مجھ پر یقین نہیں تھا کہ میں ایک فنکار بن گیا ہوں، جب انہوں نے مجھے نمائش میں دیکھا تو وہ خوش ہوئے۔‘‘

کراچی سینٹرل جیل کے اس آرٹ پروگرام کے تحت قیدی عربی، انگریزی یا مینڈرین زبانوں کے ساتھ ساتھ ہاتھ کی کڑھائی اور موتی کاری کا کام بھی سیکھ سکتے ہیں۔ جیل کے ایک سینیئر اہلکار عماد چانڈیو نے اے ایف پی کو بتایا، ''ان کو تعمیری سرگرمیوں میں شامل کرنے سے وہ (قیدی) َکھل اٹھتے ہیں۔اس سے انہیں اپنے ماضی پر غور کرنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ  انہوں نے کون سا جرم، کون سا گناہ یا کس قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘

Pakistan Karachi | Mörder und Entführer verkaufen Kunst aus pakistanischem Gefängnis
کراچی سینٹرل جیل میں قیدیوں کے لیے شروع کی گئی میوزک کلاس کا منظر تصویر: Asif Hassan/AFP

بہتر شہری بننے میں مدد

چانڈیو کا مزید کہنا تھا، ''کوئی بھی فن جو ایک اصلاحی سہولت کے اندر تیار کیا جا رہا ہے وہ دراصل قیدیوں کی ملکیت ہے اور ان مصنوعات کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی ان قیدیوں کی ملکیت ہے۔‘‘

پاکستان بھر کی جیلوں میں قیدیوں کو پانی، صفائی اور خوراک تک محدود رسائی، جیسے مسائل کا سامنا ہونے کے ساتھ ساتھ ان قیدیوں کی تعداد اکثر جیلوں میں گنجائش  سےخطرناک حد تک زیادہ  ہوتی ہے۔ تاہم بڑے شہروں کی سینٹرل جیلوں کو عام طور پر بہتر فنڈنگ ​​ملتی ہے۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ بلال کے بقول، ''قیدیوں کی بحالی کی کوششیں سب سے پہلے ہونا چاہییں، سزاؤں کا مقصد انہیں بہتر شہری بننے میں مدد دینا ہے۔‘‘

مہتاب ذاکر  قتل کے جرم میں پانچ سال قبل سزا سنائی گئی تھی۔لیکن اب کے خاندان کا مالی انحصار اب بھی انہی پر ہی ہے۔ 34 سالہ مہتاب کا کہنا ہے،  ''میں جانتا ہوں کہ میں نے یہاں وقت ضائع نہیں کیا، کم از کم ہم نے کچھ سیکھا ہے، جب میں پینٹنگ مکمل کرتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے اور اس سے مجھے یہ اعتماد ملتا ہے کہ کم از کم میں کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘

ش ر / ع ب (اے ایف پی)

قیدیوں کو فنکار بناتی تربیت گاہ